پارلیمنٹرینز کمیشن برائے انسانی حقوق نے انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے مالی سال 2025-26 کے وفاقی بجٹ پر اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس کا انعقاد

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)پارلیمنٹرینز کمیشن برائے انسانی حقوق (PCHR) نے انسانی حقوق کے تناظر میں مالی سال 2025-26 کے وفاقی بجٹ پر غور کے لیے ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس کا انعقاد کیا۔ اس اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نے شرکت کی۔ مقررین میں ڈاکٹر نفیسہ شاہ (چیئرپرسن، جینڈر مین اسٹریم اور قانون و انصاف کمیٹی، قومی اسمبلی)، محترمہ شاہدہ رحمانی (رکن قومی اسمبلی، چیئرپرسن ویمن پارلیمنٹری کاکس)، سینیٹر خلیل طاہر (رکن، سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی)، جناب ریاض فتیانہ (رکن قومی اسمبلی)، جناب احمد سلیم صدیقی، محترمہ آسیہ اسحاق صدیقی، جناب نیلسن عظیم، جناب نوید امیر، محترمہ سحر کامران، جناب اسپندیار بھندارا، جناب امجد علی خان، سید حفیظ الدین، اور جناب مقداد علی خان شامل تھے ،اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ، سول سوسائٹی کے ماہرین اور اہم سرکاری اداروں کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔ معروف صحافیوں جن میں جناب افضل بٹ (صدر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس) اور جناب نیئر علی (سیکریٹری نیشنل پریس کلب) نے شرکت کی اور شفافیت، احتساب اور انسانی حقوق پر مبنی پالیسی مکالمے میں میڈیا کے کردار پر زور دیا۔

رکن قومی اسمبلی و چیئرمین PCHR جناب ریاض فتیانہ نے PCHR کے مشن اور اس کی خدمات کا تعارف کروایا اور بجٹ کی پارلیمانی جانچ پڑتال کو انسانی حقوق کے تناظر میں خصوصاً محروم طبقات کے لیے اہم قرار دیا۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر PCHR جناب محمد شفیق چوہدری نے پاکستان کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں پر پریزنٹیشن دی اور انسانی حقوق کے قوانین و پالیسیوں پر مؤثر عملدرآمد کے لیے مناسب وسائل کی فراہمی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اقلیتوں کے تحفظ اور اذیت کے انسداد کے لیے دو پارلیمانی ورکنگ گروپس کے قیام کی تجویز بھی دی ، پارٹنر ادارے جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی نمائندہ محترمہ مشعل شاہد نے پاکستان کے انسداد تشدد کے قانونی و پالیسی فریم ورک پر تفصیلی تجزیہ پیش کیا اور ان خامیوں کی نشاندہی کی جنہیں فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر (پالیسی) اور سربراہ پائیداری و مزاحمتی پروگرام ڈاکٹر شفقات منیر احمد نے انسانی حقوق کے تناظر میں بجٹ 2025-26 کا جامع تجزیہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ بجٹ میں 4.2 فیصد جی ڈی پی گروتھ اور 14.3 ٹریلین روپے کی آمدن کا ہدف رکھا گیا ہے، مگر اس میں انسانی حقوق سے متعلق کئی اہم پہلو تشویش ناک حد تک نظرانداز کیے گئے ہیں ، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے کوئی مخصوص فنڈز یا پالیسی اقدامات موجود نہیں، جس سے شمولیت کے خلا کی عکاسی ہوتی ہے۔ اگرچہ ڈیجیٹل لیوی سے 64 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے، مگر حق اطلاعات اور ڈیجیٹل شمولیت میں سرمایہ کاری کا فقدان خاص طور پر دیہی علاقوں کو مزید پسماندگی میں دھکیلتا ہے ، سستے ریلیف کے باوجود بیروزگاری اور غیررسمی معیشت پر توجہ کی کمی معاشی انصاف اور روزگار کے حقوق کو نقصان پہنچاتی ہے، خاص طور پر خواتین، نوجوانوں اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے۔ 118 ترقیاتی منصوبوں کی کٹوتی اور صحت و تعلیم کے شعبوں میں ناکافی فنڈنگ نے انسانی ترقی کے اہداف کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے اپنے کلمات میں اس بات پر زور دیا کہ قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی بجٹ کا فعال جائزہ لے رہی ہے اور یہ وقت ہے کہ اراکین پارلیمنٹ انسانی حقوق سے متعلق شعبہ جات کے لیے بجٹ میں زیادہ فنڈز مختص کرنے کا مطالبہ کریں، خاص طور پر پسماندہ طبقات کے لیے شرکاء نے مالی سال 2025-26 کے وفاقی بجٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کو دی گئی بلاجواز اور غیرضروری گرفتاری و جائیداد ضبطی کی طاقتوں پر تشویش کا اظہار کیا، جو عدالتی نگرانی کے بغیر دی گئی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ اختیارات انصاف کے تقاضوں کے منافی اور سیاسی انتقام کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں ،شرکاء نے تجویز دی کہ حکومت زبردستی کے بجائے آگاہی اور رضاکارانہ ٹیکس ادائیگی کے رجحان کو فروغ دے ،تمام شرکاء نے متفقہ طور پر زور دیا کہ پاکستان کی مالیاتی پالیسیوں اور قومی ترقیاتی ایجنڈے میں انسانی حقوق کی ترجیحات کو شامل کرنے کے لیے کثیر الفریقہ (multi-stakeholder) حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے۔