اسکولوں میں زہریلا ماحول ،خواتین اساتذہ کے لیے ایک نظر انداز شدہ جدوجہد

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر )اسکول جنہیں ترقی، تربیت اور اخلاقی اقدار کا مرکز سمجھا جاتا ہے، اکثر خواتین اساتذہ کے لیے زہریلے ماحول کی علامت بن جاتے ہیں، جہاں عزت نفس مجروح ہوتی ہے، پیشہ ورانہ ترقی کی راہیں بند کی جاتی ہیں اور صنفی امتیاز عام بات ہے ، ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں اکثر مرد اساتذہ کو رہنمائی کا علمبردار سمجھا جاتا ہے، جبکہ خواتین کو “جذباتی” یا “غرور کی ماری ہوئی” کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ ایک حالیہ سروے، جو نیشنل ایسوسی ایشن آف سیکنڈری اسکول پرنسپلز نے 2023 میں جاری کیا، ظاہر کرتا ہے کہ 68 فیصد خواتین پرنسپلز نے تسلیم کیا کہ ان کے اختیارات کو مسلسل چیلنج کیا گیا، جبکہ مرد ہم منصبوں میں یہ شرح صرف 35 فیصد تھی۔

خطرناک رویے، جو زہر بن کر پھیل رہے ہیں:گیس لائٹر: حقائق کو جھٹلانا، جیسے کہنا کہ “تم غلط یاد کر رہی ہو” یا “تم بہت جذباتی ہو”۔ یہ اکثر اساتذہ کی کارکردگی کی جانچ یا یونین تنازعات میں دیکھا جاتا ہے۔کریڈٹ چور: دوسروں کی محنت یا خیالات کا سہرا خود لینا۔ جملے جیسے “ہم سب نے یہ ساتھ کیا” جب حقیقت کچھ اور ہو۔پاسیو-ایگریسو ساتھی: طنزیہ تبصرے، جیسے “واقعی بجٹ منظور کروا لیا؟ کیسے کیا تم نے؟”غنڈہ یا بلی: عوامی سطح پر تضحیک، جنسی طنز، اور جملے جیسے “یہ مرد کا کام ہے”۔مواقع کی راہ میں رکاوٹ: خواتین کو ترقی یا تربیتی مواقع سے محروم رکھنا، کہتے ہوئے، “ابھی تم تیار نہیں ہو” ، دوہرے معیار کی دیوار:خواتین اساتذہ کو نہ صرف جذباتی محنت کے بوجھ تلے دبایا جاتا ہے، بلکہ انہیں ایسے گروپس سے بھی باہر رکھا جاتا ہے جہاں اہم فیصلے ہوتے ہیں، خاص طور پر سائنس، ٹیکنالوجی اور کھیلوں جیسے شعبوں میں۔

احتیاطی تدابیر اور قانونی حقوق:ماہرین کا مشورہ ہے کہ اساتذہ اپنے حقوق کے لیے خود آواز بلند کریں:ای میلز، گواہوں اور رویوں کا ریکارڈ رکھیں ، گیس لائٹنگ کا جواب دیں: “میرے نوٹس کچھ اور کہتے ہیں، آئیں حقائق دیکھیں”۔
کریڈٹ چوری پر کہیں: “آپ کو میری تجویز پسند آئی، آئیں طے کریں کہ اسے کیسے نافذ کرنا ہے” ، پاکستانی قانون کے تحت خواتین اساتذہ سیکشن 354 PPC، 509 PPC یا تحفظِ خواتین از ہراسگی ایکٹ 2010 کے تحت قانونی چارہ جوئی کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، اداروں کو چاہیے کہ ترقی و تبادلے کے لیے شفاف معیار وضع کریں ، ساتھیوں اور یونینز کا کردار:ساتھی اساتذہ فوری طور پر مداخلت کر کے کہیں: “میں چاہوں گا کہ (خاتون استاد) اپنی بات مکمل کریں”۔ یونینز کو چاہیے کہ کنٹریکٹس میں زہریلے ماحول کے خلاف شقیں شامل کریں۔

نتیجہ:“طلبہ کے لیے قربانی” کا مفروضہ ایک خاموش استحصال کو جنم دیتا ہے۔ جب تک خواتین محفوظ ماحول میں تعلیم اور قیادت نہیں دے سکتیں، نظام تعلیم اپنے اصل مقصد سے دور ہے ، ہمیں اسکولوں کو حقیقی ترقی کا گہوارہ بنانا ہوگا — آئیے، اس تبدیلی کا آغاز مل کر کریں۔