مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ کل کا دن پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ جب عمران نیازی نے سویلین مارشل لا نافذ کیا۔
انہوں نے کہا کہ 3 نومبر کو جنرل (ر) مشرف نے بھی یہی آمرانہ، اور فسطائی اقدام اٹھایا تھا، عمران خان اور اس کے حواریوں نے آئین کی واضح خلاف ورزی، آئین شکنی کی ہے کیوں کہ 24 مارچ کو اسپیکر نے ایوان کی منشا کے مطابق عدم اعتماد کی قرار داد کو ملتوی کیا اگر کوئی اعتراض تھا تو 24 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک کو leave گرانٹ کیوں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کا پورا ایک نظام ہے اس کی ایک قانونی برانچ ہوتی ہے اسپیکر تمام مراحل طے کرکے ضوابط کے مطابق کسی ایجنڈا آئٹم کو ایوان میں پیش کرواتا ہے وگرنہ اسے اپنے دفتر میں ہی مسترد کردیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی چیز آرٹیکل 5 کی زمرے میں آرہی تھی تو اسپیکر نے اسی قرار داد کو ایوان کی منشا اور اجازت کے بعد لیو کیوں گرانٹ کی لہٰذا اس کے بعد کسی قسم کا ردو بدل ممکن نہیں تھا اور تحریک کو ہر صورت گزشتہ روز ووٹنگ کے لیے پیش کیا جانا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز عمران خان نیازی نے ڈپٹی اسپیکر کو اپنا آلہ کار بنایا اور جب ایوان میں بیٹھے تو تلاوت قرآن پاک کے بعد آناً فاناً ایک وزیر کو فلور دیا جنہوں نے نہ جانے الابلا کہا اور اس پر اسپیکر نے ایک لکھا ہوا کاغذ پڑھا اور آرٹیکل 5 کا بہانہ بنا کر اس قراداد کو ووٹنگ سے ہٹا دیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ اگر کوئی اعتراض تھا یا امریکا سے کوئی کیبل آئی تھی تو 8 مارچ کو جب اسے ایوان میں جمع کرایا گیا تھا اس وقت سے لے کر 24 مارچ تک جب اسے قرار داد کو لیو گرانٹ کرنے کے لیے پیش کیا گیا تھا تو حکومت 24 مارچ کیوں اعتراض نہیں اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمران نیازی اور ان کے حواری اس شکست کا سامنا نہیں کرسکتے تھے جو انہیں ہونے جارہی تھی اس لیے انہوں نے جمہوریت کو مسخ کیا، آئین توڑا اور کل پورا دن اور رات قوم ایک خلا میں جارہی ہے حالانکہ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ کوئی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھایا جائے لیکن ماورائے آئین اقدام تو کل خود عمران نیازی اور صدر پاکستان اٹھا چکے تھے۔
صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ان کے اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ووٹرز کو امن کے ساتھ جانے کی اجازت ہوگی اور تحریک پر ہر صورت ووٹنگ ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ جس خط کے بارے میں کہا جارہا ہے اس کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، دستاویزات بالکل مستند ہیں اس میں کوئی جھول نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سفیر اسد مجید خان کی ایک ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ انہوں نے 16 مارچ کو ایک الوداعی عشائیہ دیا اور امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کا شکریہ ادا کیا گیا جبکہ وہ خط جو دفتر خارجہ کو موصول ہوا وہ 7 مارچ کو تھا۔
رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ 7 مارچ کو خط میں کہا گیا کہ ڈونلڈ لو سے ہونے والی بات چیت میں سامنے آئی کہ امریکا پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی سازش کررہا ہے جبکہ 16 مارچ کو سفیر نے ان کی دعوت کی۔
انہوں نے کہا کہہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 16 مارچ کی ٹوئٹ میں ہمارے سفیر شکریہ ادا کررہے ہیں جبکہ خط 7 مارچ کا ہے یا یہ بات غلط ہے جو سفیر نے اپنی ٹوئٹ میں کہی اور اگر بالفرض 7 مارچ کو کوئی ملاقات ہوئی اور انہوں نے کوئی ایسی بات کی تھی تو دعوت اور شکریہ کس بات کا تھا۔
شہباز شریف نے کہا کہ اگر دھمکی دی گئی تھی تو دعوت دینا یہ بڑی متضاد باتیں ہیں، اسے ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کل جن 197 لوگوں نے (خودساختہ اجلاس میں) تحریک عدم اعتماد پر جو ووٹ دیا ہے وہ اسپیکر کی بھاشن کے مطابق غدار ہوگئے، قوم، آئین، پارلیمان کے ساتھ سنگین مذاق کی گیا۔