اسلام آباد (سٹاف رپورٹر ) وزارت بحری امور کے زیر اہتمام اور اقوام متحدہ کی خوراک و زرعی تنظیم (FAO) کے تکنیکی تعاون سے ایک اہم ورکشاپ منعقد ہوئی جس میں قومی ماہی گیری و آبی زراعت پالیسی 2025–2035 کی تشکیل پر تبادلہ خیال کیا گیا ورکشاپ میں مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے ساحلی اور داخلی آبی وسائل میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے جس سے فائدہ اٹھا کر غذائی تحفظ، غربت میں کمی اور پائیدار معاشی ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے وفاقی وزیر برائے بحری امور، محمد جنید انور چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماہی گیری اور آبی زراعت کا شعبہ ملک کی جی ڈی پی میں 0.5 فیصد سے بھی کم حصہ ڈال رہا ہے، جبکہ مقامی اور برآمدی منڈیوں میں اس کی قدر میں بھی اضافہ درکار ہے انہوں نے واضح کیا کہ نئی پالیسی کا ایک اہم ہدف وفاقی و صوبائی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے، اور وزارت بحری امور قومی سطح کے اہم معاملات پر قیادت جاری رکھے گی، بشمول بین الاقوامی ذمہ داریوں کی تکمیل اور سی فوڈ برآمدات میں اضافہ ہوا ہے .
انہوں نے کہا کہ پالیسی میں موسمیاتی لچک، ماحولیاتی تحفظ، بچوں کی حفاظت، خواتین کی شمولیت، محنت کشوں کے حقوق اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جیسے اہم پہلوؤں کو بھی شامل کیا گیا ہےسیکریٹری بحری امور سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کا طویل ساحل ہونے کے باوجود ماہی گیری کا شعبہ اپنی مکمل صلاحیت حاصل نہیں کر سکا۔ انہوں نے کہا کہ مناسب منصوبہ بندی اور قدر میں اضافے سے یہ شعبہ 10 ارب ڈالر کی قدر پیدا کر سکتا ہے
FAO کی نمائندہ فلورنس رولے نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان مؤثر رابطہ ضروری ہے۔ انہوں نے بلوچستان کی صوبائی ماہی گیری پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پائیدار طریقوں سے بین الاقوامی موسمیاتی فنڈنگ حاصل کی جا سکتی ہےڈاکٹر مرتضیٰ حسن اندرا بی، کمشنر برائے جانوروں کی نگہداشت، وزارت قومی غذائی تحفظ نے زور دیا کہ پالیسی حقیقت پسندانہ ہو اور تمام شراکت داروں کی رائے اس میں شامل کی جائے
FAO کے سینئر پالیسی ماہر ڈاکٹر کنور محمد جاوید اقبال نے پالیسی کی نمایاں خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس میں مالی مراعات، ماحولیاتی تحفظ، خواتین کو بااختیار بنانا، محفوظ کام کا ماحول، روزگار کے مواقع اور آلودگی پر قابو جیسے اہم نکات شامل ہیں ورکشاپ میں مختلف پینل گفتگو کا انعقاد بھی کیا گیا جن میں ماہی گیری اور آبی زراعت کے شعبے میں حکمرانی، مراعات، ترقیاتی حکمت عملی، اور نفاذ کے فریم ورک جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی.
مہمانوں میں بلوچستان اور سندھ کے ماہی گیری شعبے سے تعلق رکھنے والے نمائندگان، ماہرین تعلیم اور پالیسی ساز شامل تھے۔ اس موقع پر یوناس انور (ماہی گیر اتحاد گوادر)، ناصر رحیم سہرابی (RCDC گوادر) اور aquaculture فارمرز ایسوسی ایشن کے صدر سید دایم شاہ نے بھی خطاب کیا .