اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو جب دوران سماعت چیف جسٹس نے روسٹرم پر بلالیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں کوئی وکیل نہیں ،عام انسان ہوں، چند حقائق عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، ڈپٹی اسپیکرکا اقدام غیر آئینی ہے تو وزیراعظم کا صدر کی مدد سے کیے گئے اقدام کی بھی کوئی وقعت نہیں، اگرڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی ہے تو کوئی اسمبلی ایسے تحلیل نہیں ہوئی، ججز اور عدلیہ کی بہت عزت کرتاہوں اور آپ پر فخر ہے۔
صدر مسلم لیگ ن نے کہا کہ غلطیوں پر سزائیں نہ ہوئیں تو غلط کو کوئی نہیں روک سکتا، اسپیکرکا اقدام غلط ہے تو پارلیمنٹ کو بحال کیا جائے، ڈپٹی اسپیکر کا اقدام غیر قانونی اور غیرآئینی تھا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی اور اس دوران اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جاسکتیں، رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے کہا ہے کہ اسپیکر کا اقدام غلط تھا، اگر گذشتہ حکومت اتحادیوں کے ساتھ چل سکتی تھی تو اب کیوں نہیں؟ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں، حکومت کے اتحادیوں نے اپوزیشن کیمپ جوائن کیا، گارنٹی دیتا ہوں کہ آئین پاکستان کا تحفظ کریں گے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 2013 میں آپ کی جماعت کے پاس کتنی سیٹیں تھیں ؟ شہبازشریف نے جواب دیا کہ 2013 میں 150 سے زائد نشستیں تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کےتحت موجودہ کارروائی کر رہے ہیں، یہ مفاد عامہ کا کیس ہے، رولنگ کو ختم کرکے دیکھیں گے آگے کیسے چلنا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں فریش الیکشن چاہتی تھیں،فریش الیکشن کا موقع ہے، آب کیوں نہیں چاہتے؟
شہبازشریف نے جواب دیا کہ الیکشن چوری ہوا ہے،آئین توڑا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو آئین ٹوٹا وہ ہم بحال کرلیں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہاؤس نیا لیڈر آف ہاؤس منتخب کرلیتا ہےتو ملک کو استحکام کی طرف لے جائیں گے، انتخابی اصلاحات لائیں گے جن سےفری اینڈ فیئر الیکشن ہوں گے، عام آدمی تباہ ہوگیا، اس کے لیے ریلیف پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔