آبی گزر گاہوں کے اطراف 200 میٹر تک تعمیرات پر پابندی ہونی چاہیے،ٹمبر مافیا اور قبضہ مافیا کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں، اراکین قومی اسمبلی کا اظہار خیال

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر )قومی اسمبلی کے اراکین نے سیاسی تفریق کے بغیرمتاثرین سیلاب کی مدد کی ضرورت پرزوردیتے ہوئے کہاہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے جامع پالیسی مرتب کرنا وقت کی ضرورت ہے،سیاسی تقسیم کے بغیرموسمیاتی تبدیلیوں کیلئے قانون سازی کی حمایت کرنا چاہئے،آئندہ سال مون سون کی شدت میں 22فیصد اضافہ کی پیشنگوئی کے تناظرمیں ابھی سے اقدامات شروع کرنا ضروری ہے،آبی گزر گاہوں کے اطراف 200 میٹر تک تعمیرات پر پابندی ہونی چاہیے،ٹمبر مافیا اور قبضہ مافیا کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔منگل کوقومی اسمبلی میں سیلاب کی صورتحال پربحث میں حصہ لیتے ہوئے اسلم گھمن نے کہاکہ سیلاب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے،ہماراحلقہ سیلاب سے متاثرہ ہواہے اور22اموات ہوئی ہیں جس میں ایک خاندان کے چھ افرادشامل ہیں،سیلاب سے مویشی بہہ گئے اورفصلیں بھی تباہ ہوگئی ہیں، سڑکیں بھی بری طرح سے متاثرہیں۔

انہوں نے کہاکہ دریائے چناب پرشہبازبریج اصل مقام سے دوکلومیٹردوربنایاگیا جس کی وجہ سے سیلاب سے نقصان ہواہے، ریت مافیا بڑی بڑی مشینوں سے ریت نکال رہے ہیں، ریت نکالنے کیلئے بندبنایاگیاتھا جس کی وجہ سے سیلاب نے آبادیوں کارخ کرلیا۔انہوں نے سیاسی تفریق کے بغیرمتاثرین کی مدد کی ضرورت پرزوردیا۔اسدقیصرنے کہاکہ پنجاب کے بہن بھائی مشکل میں ہے اورہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ سائرہ افضل تارڑ نے کہاکہ این ڈی ایم اے کی بریفنگ معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ الارمنگ بھی تھی، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے وفاقی اورصوبائی سطح پراقدامات ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ حافظ آباد میں دریائے چناب میں جتناپانی آیاہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی،خوش قسمتی سے قادرآبادبندکوبچایاگیاہے۔

انہوں نے کہاکہ سیم نالوں کیلئے اراضی حاصل نہیں کی گئی جس کی وجہ سے لوگوں نے ان مقامات پرفصلیں اگائیں اورگھربھی تعمیرکئے، ہم نے یہ معاملہ پنجاب حکومت کے ساتھ اٹھایاہے کہ سیم نالوں کیلئے اراضی حاصل کرنے کیلئے اقدامات کئے جائے۔انہوں نے کہاکہ آئندہ سال مون سون کی شدت میں 22فیصد اضافہ کی پیشنگوئی ہے اس تناظرمیں اس حوالہ سے ابھی سے اقدامات اٹھائے جائے۔پی پی پی کی ثمینہ گھرکی نے کہاکہ 04-2003میں جب راوی کنارے سپورٹ سٹی کااعلان کیاگیاتھا توہم نے اس وقت بھی اس کی مخالفت کی تھی،اس وقت پنجاب اورخیبرپختونخوا میں بارشوں اورسیلاب کاسلسلہ جاری ہے اوراب سیلابی پانی سندھ کارخ کررہاہے۔انہوں نے کہاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کیلئے قانون سازی کی سیاسی تقسیم کے بغیرحمایت کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ راوی کنارے سوسائٹیز اوردیگرتعمیرات کی اجازت دینے والوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہییے۔شاہدہ اخترعلی نے کہاکہ موسمیاتی اورماحولیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کے متاثرہونے کے بارے میں ہمیں متنبہ کیاگیاتھا مگراس حوالہ سے اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے بارشوں اورسیلاب سے نقصانات ہورہے ہیں۔اگربروقت حفاظتی اقدامات کئے جاتے تواتنانقصان نہ ہوتا۔انہوں نے کہاکہ آنیوالے سال میں مون سون کی شدت میں اضافہ کی رپورٹوں کے تناظرمیں ابھی سے اقدامات کئے جائے۔خیبرپختونخوا میں جنگلات کی غیرقانونی کٹائی کاسلسلہ جاری ہے جس کاتدارک ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ زراعت، شجرکاری اوردیگرشعبہ کی ماہرین کی مشاورت سے ایسے درخت اورپودے لگائے جائے جس سے جنگلات کی کٹائی سے ہونے والے نقصانات کوکم کیا جاسکے اوراس کے اثرات کوزائل کیاجاسکے۔

انہوں نے کہاکہ سیلاب اورقدرتی آفات کے موقع پرہمیں سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے گریزکرناچاہیے۔انہوں نے سیلاب سے متاثرہ افراد بالخصوص خواتین اوربچوں کی ذہنی صحت کیلئے سہولیات کی فراہمی کامطالبہ کیا۔ آسیہ اسحاق نے کہاکہ جوممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دارہیں وہ کوپ کا منہ بندکرنے کیلئے مالیاتی وسائل استعمال کرتے ہیں، اقوام متحدہ کی طرح کوپ بھی اپنی قراردادوں پرعمل درآمدنہیں کرسکتا۔موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دارممالک اب بھی فوسل ایندھن کو فروغ دے رہے ہیں، سیلاب اورگلیشئیرز کے پگھلنے کے بعد غذائی بحران کاخدشہ ہے۔انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم پاکستان نئے صوبوں اورمضبوط وفعال بلدیاتی نظام کی حمایت کرتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ دریائوں نے راستہ تبدیل نہیں کیابلکہ اپنا راستہ واپس لیاہے۔این ڈی ایم اے نے صوبوں کو نالوں کی صفائی کیلئے 4ماہ پہلے آگاہ کردیاتھا۔ مون سون ریزلئینس فنڈ کااعلان کیاجائے۔مسلم لیگ ن کی رکن نوشین افتخارنے کہاکہ قدرتی آفت کے موقع پرالزام تراشی اورسیاست کی بجائے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے،سیلاب سے سیالکوٹ میں نقصان ہواہے، ڈسکہ شہر کے 70گاوں سیلاب میں ڈوب گئے ہیں اورفصلوں کونقصان پہنچا ہے۔اس وقت پاکستان کوسخت فیصلوں کی ضرورت ہے، ٹھیکیدار اورٹمبرمافیا کے خلاف اقدامات کرنا ہوں گے۔معرکہ حق کے بعد بھارت سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کررہاہے، اگرہمیں بروقت آگاہ کیاجاتا توسیلاب سے اتنازیادہ نقصان نہیں سکتاتھا۔جے یوآئی ف کے نورعالم خان نے کہاکہ اٹھارویں ترمیم کے بعداختیارات صوبوں کومنتقل ہوئے ہیں، پی ٹی آئی خیبرپختونخوامیں حکمران ہے وہاں دریاوں کے ساتھ تعمیرات کی اجازت کس نے دی ہے؟

دریاوں کے ساتھ تعمیرات کی این اوسی دینے والے افسران کے خلاف کاروائی کرنا چاہئیے۔انہوں نے کہاکہ بھارت نے آبی جارحیت کی ہے اوریہ سلسلہ بندنہیں ہواہے، بھارت مستقبل میں بھی اس طرح کی کارروائی کرسکتاہے اس تناظرمیں ابھی سے اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ اٹھارویں ترمیم سے وفاق کوکمزورکردیاگیاہے،پاکستان کومضبوط کرنا چاہئیے، افسران کااحتساب ہونا چاہئیے۔پیپلز پارٹی کے رکن مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ قدرتی آفات کے نقصانات کم سے کم ہوں،آبی گذرگاہوں کے 200 میٹر تک تعمیرات پر پابندی ہونی چاہیے،کے پی میں سٹون کرشنگ کے لئے دیئے جانے والے لائسنس زیادہ ہیں،اس پر نظر ثانی کی جائے۔اس کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ ہورہی ہے۔

مسلم لیگ (ن )کے رکن رانا حیات نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں مل کر کاشتکاروں کو ان کی تباہ ہونے والی فصلوں کا معاوضہ دے،بجلی کے بل معاف کرے۔جمیعت علمائے اسلام کے رکن عثمان بادینی نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں متاثرین کی مدد کے لئے سب سے پہلے جمیعت علمائے اسلام پہنچی ہے۔عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔صادق علی میمن نے کہا کہ چناب میں جتنا سیلابی پانی دیکھنے میں آیا اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی،ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کو دیکھنا ہوگا،جنگلات کا کٹائو بھی اس کی ایک وجہ ہے،اس پر غور کرنا چاہیے۔موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے وزارت کو مضبوط بنایا جائے۔شائستہ پرویز ملک میں کہا کہ سیلاب سے تباہی کی ذمہ دار ٹمبر مافیا اور لینڈ مافیا ہے،ہم نے ٹمبر مافیا کی تباہ کاریوں کے کمیٹیوں میں ثبوت دیئے،ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں آج فیصلہ کرنا ہے کہ کیا منصوبہ بندی کرنا ہے۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا عالمی عدالت انصاف میں جانا ہوگا کہ بھارت کی جانب سے جو پانی چھوڑا گیا وہ آبی دہشت گردی تو نہیں ہے۔یہ فیصلے کی گھڑی ہے،ہمیں عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔اپوزیشن ایسے مواقع پر سیاست سے اجتناب کرے۔فتح اللہ خان نے کہا کہ سیلاب ہر پاکستانی شہری کے لئے لمحہ فکریہ ہے،حکومت کو موسمیاتی تبدیلیوں پر توجہ دینی چاہیے۔وزیر اعظم نے بروقت اقدامات اٹھائے اس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔بھارت کی آبی جارحیت کا عالمی ادارے نوٹس لیں.