جنگلات کی تیز رفتار کٹائی سے ماحولیاتی انہدام کا خطرہ ہے، ماہرین کا انتباہ

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر )ممتاز ماہرین، پالیسی سازوں اور سول سوسائٹی نمائندوں نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا میں جنگلات کی تیز رفتار کٹائی ماحولیاتی نظام کوتباہی کے دہانے پر لے آئی ہے جس کے نتیجے میں بار بار آنے والے تباہ کن سیلاب، زراعت اور غذائی تحفظ کو لاحق بڑھتے خطرات اورماحولیاتی بے ترتیبی ملک کےلئے سنگین چیلنج بن چکے ہیں۔ ماہرین نے واضح کیا کہ اصل مسئلہ قانون سازی کی کمی نہیں بلکہ ادارہ جاتی کمزوری، غیر قانونی کٹائی، اراضی کے بے ہنگم استعمال اور عمل درآمد کا فقدان ہے جس سے نمٹنے کے لئے فوری قانونی، پالیسی اور حکمرانی کی اصلاحات پر مبنی حکمت عملی اختیار کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

قانونی، پالیسی اور حکمرانی کے محاذ پر اصلاحات ناگزیر ہیں تاکہ ماحولیاتی تباہی کے عمل کو روکا جا سکے۔ انہوں نے یہ بات پاکستان کے قدرتی سرمائے کا تحفظ برائے ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار خوشحالی کے موضوع پرمنعقدہ قومی مشاورت میں کہی جس کا اہتمام پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) نے سسٹین ایبل کنزرویشن نیٹ ورک (ایس سی این) کے اشتراک سے کیا ۔ایس ڈی پی آئی کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین اور سابق سفارتکار شفقت کاکاخیل نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جنگلاتی رقبے کی کمی اور سیلابی تباہ کاریوں میں براہِ راست تعلق ہے اور خیبرپختونخوا کے جنگلاتی ذخائر کی تیزی سے کمی صوبے کے نازک ماحولیاتی توازن کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔اپنے کلیدی خطاب میں سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ایس ڈی پی آئی کے بانی سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی گزشتہ تین دہائیوں میں قومی و صوبائی سطح پر مختلف اقدامات کے باوجود ایک حل طلب مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناکامی قانون سازی میں نہیں بلکہ ادارہ جاتی کمزوری میں ہے ،جب تک ان اداروں کو تحفظ اور تقویت نہیں دی جائے گی کوئی قانون موثر نہیں ہو سکتا۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کے سیکرٹری شاہد زمان نے اپنے خطاب میں حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والی ماحولیاتی تباہی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ بالائی آبی گزرگاہوں میں تیزی سے جاری ماحولیاتی انحطاط اور رہائش گاہوں کا خاتمہ ہے۔شاہد زمان نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے بلین ٹری سونامی اور موجودہ ٹین بلین ٹری سونامی /گرین پاکستان اپ اسکیل منصوبوں کے ذریعے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے جنگلات کا 30 فیصد حصہ غیر قانونی کٹائی کا شکار ہے جس کیلئے افسران کو جوابدہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے میں زرعی زمین کو تجارتی مقاصد کے لئے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔سابق کنٹری ڈائریکٹر عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت (آئی یو سی این) محمد رفیق نے اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے عالمی بینک، ایف اے او اور گلوبل فاریسٹ واچ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سبزہ مسلسل کم ہو رہا ہے ۔سابق چیئرمین واپڈا اور ماہر حکمرانی شکیل درانی نے کہا کہ قدرتی آفات کے دوران حکومتی نظام کی ناکامی کھل کر سامنے آتی ہے۔ انہوں نے بونیر، مینگورہ اور کالام میں آنے والے سیلاب کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ کہیں بھی ضلعی نظام موثر ثابت نہ ہو سکا کیونکہ زرعی اور جنگلاتی زمینوں کو ہائوسنگ سکیموں نے نگل لیا ہے۔ انہوں نے لینڈ یوز ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام اور موجودہ قوانین کے پی پروٹیکشن آف ریورز ایکٹ 2002 کے نفاذ پر زور دیا ۔سسٹین ایبل کنزرویشن نیٹ ورک کے کنوینر ڈاکٹر عادل ظریف نے یاد دلایا کہ خیبرپختونخوا نے 2001 میں سرحد کنزرویشن نیٹ ورک کے قیام کے ذریعے ایک وقت میں ماحولیاتی تحفظ میں پیش قدمی کی تھی۔

ماہر موسمیات و پانی ڈاکٹر سائمہ ہاشم نے مالیاتی بدانتظامی کے خطرات پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اشرافیہ کے تسلط اور ادارہ جاتی کمزوری سے بچائو ضروری ہے۔ انہوں نے خواتین کو بطور جنگلاتی نگہبان شامل کرنے اور جنگلات، مالیات اور صنفی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ماہر قانون ایڈووکیٹ علی گوہر درانی نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے لاہور اور پشاور میں قائم کردہ ماحولیاتی ٹریبونلز کا قانونی جواز کمزور ہو گیا ہے۔قومی اسمبلی کی ماحولیاتی تبدیلی کمیٹی کے رکن ایم این اے اویس حیدر نے کہا کہ پاکستان خطے میں ماحولیاتی تبدیلی کے شدید اثرات جھیل رہا ہے ۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے شمسی مائیکرو گرڈ ماڈل کو اپنانے کی تجویز دی ۔ انہوں نے فوسل فیول کے استعمال میں کمی، برقی گاڑیوں اور ہائیڈروجن توانائی کے فروغ کےلئے ملک گیر مہمات پر زور دیا۔پارلیمنٹیرین ڈاکٹر شازیہ صوبیہ اسلم سومرو نے جنگلاتی قوانین پر عمل درآمد کی کمی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ قوانین پر عمل درآمد کےلئے معاشرے کی اجتماعی شمولیت درکار ہے۔سابق انسپکٹر جنرل آف فاریسٹ وزارت ماحولیات ڈاکٹر سید محمود ناصر نے کہا کہ قانون سازی کے لئے مشترکہ مفادات کونسل اور پارلیمنٹ جیسے پلیٹ فارمز استعمال کرنے کی ضرورت ہے اختتامی کلمات میں ڈاکٹر بنوری نے ایک بار پھر اس امر پر زور دیا کہ خود مختار اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس محکمہ جنگلات ہی پائیدار نتائج دے سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک موثر نظام وہی ہوتا ہے جو ادارہ جاتی خود مختاری پر کھڑا ہو۔ محکمے کے اندر مدتِ ملازمت، سروس اسٹرکچر اور قیادت کا تحفظ ضروری ہے۔ جب تک ادارہ جاتی اصلاحات نہ ہوں، کوئی قانونی ترمیم نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی