حکومت کی پالیسیوں سے شوگر مافیا کو اربوں کا فائدہ ہو رہا ھے ۔ شاہد خاقان عباسی

اسلام آباد( سٹاف رپورٹر) سابق وزیر اعظم اورعوام پاکستان پارٹی کے کنوینر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ جو حکومتیں عوام کی نمائندہ نہیں ہوتیں، انہیں عوام کی نہیں اپنی جیب کی فکر ہوتی ہے، حکومت نے انٹرنیشنل مارکیٹ سے بھی زائد قیمت میں چینی خریدی اور اس چینی کو مارکیٹ میں نہیں آنے دیا، چینی کی قیمت بڑھنے سے 3 سے 4 سو ارب روپے عوام کی جیبوں سے نکل کرشوگر ملز مالکان کی جیبوں میں گئے، حکومتی پالیسوں کے باعث شوگر ملز مالکان کو اضافی فائدہ پہنچایا گیا، مشروبات اور دیگر فیکٹریوں کو یہ چینی خریدنے کے لیے مجبور کیا، مارکیٹ میں وہ امپورٹ شدہ چینی آتی تو عوام کا فائدہ ہوتا ہے، چینی کی درآمدات میں بھی چینی ملز مالکان کا خاص خیال رکھا گیا، چینی مل کے مالکان کو اس میں بھی ریلیف دیا گیا، آج بھی ایک ارب روپے یومیہ عوام کی جیب سے شوگر ملز مالکان کو جا رہا ہے، حکومت، پارلیمان اور چینی کی پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام ہیں،ملک میں گورننس کی یہ حالت ہے، ایک سال میں چینی کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، کوئی جواب دینے والا ہے؟ کم از کم غلطی تو مان لیں،نیب کا کام ملک میں کرپٹ ٹولے کو بچانا اور سیاست میں جوڑ توڑہے،شاہد خاقان عباسی نے ان خیالات کا اظہار نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےکیا۔

عوام پاکستان پارٹی کے کنوینر کا مزید کہنا تھا کہ حکومتوں کا کام عوام کو سہولیات پہنچانا ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ملک میں حکوتیں نہ صرف اس میں ناکام رہتی ہیں بلکہ عوام کی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بنتی ہیں، چینی کی قیمت 200 کے قریب فی کلو تک چلی گئی، مارکیٹ کو انتظامی کوششوں سے چلانے والا وقت ختم ہوگیا، چینی کی قیمت میں ایک روپے اضافہ ہوتا ہے تو عوام کی جیب سے 7 ارب روپے جاتا ہے، چینی کی قیمت بڑھنے سے 3 سے 4 سو ارب روپے شوگر ملز مالکان کو ملے، شوگر ملز مالکان کو اضافی فائدہ پہنچایا گیا،شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ کابینہ کی ایک شوگر مانیٹرنگ کمیٹی ہے، کم از کم 7، 8 کمیٹیاں ہیں جن کا کام ملک میں چینی کی قیمت کو کنٹرول کرنا ہے، اتنی کمیٹیوں کے باجود چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، جب ملک میں چینی کی اتنی مقدار نہیں تھی تو ایکسپورٹ کی اجازت دی گئی، آج بھی ایک ارب روپے یومیہ عوام کی جیب سے شوگر ملز مالکان کو جا رہا ہے، حکومت، پارلیمان اور چینی کی پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام ہیں، آٹے کا معاملہ تو اس سے بھی آگے بڑھ چکا ہے، ملک میں گورننس کی یہ حالت ہے، ایک سال میں چینی کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، کوئی جواب دینے والا ہے؟

کم از کم غلطی تو مان لیں نا!شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اب اجازت دی گئی کہ چینی امپورٹ کی جائے، چینی ایکسپورٹ پرائیویٹ سیکٹر کر رہا ہے، امپورٹ حکومت کر رہی ہے، حکومت نے چینی مارکیٹ سے زائد قیمتوں میں خریدی، حکومت نے انٹرنیشنل مارکیٹ سے بھی زائد قیمت میں چینی خریدی،عوام پاکستان پارٹی کے کنوینر نے کہا کہ حکومت نے چینی کی قیمت میں سیلز ٹیکس پر چھوٹ دے دی، حکومت نے اس چینی کو مارکیٹ میں نہیں آنے دیا۔ مشروبات اور دیگر فیکٹریوں کو یہ چینی خریدنے کے لیے مجبور کیا، مارکیٹ میں وہ امپورٹ شدہ چینی آتی تو عوام کا فائدہ ہوتا ہے، چینی کی درآمدات میں بھی چینی ملز مالکان کا خاص خیال رکھا گیا، چینی مل کے مالکان کو اس میں بھی ریلیف دیا گیا،کوئی بھی ریٹیلر185 کی چینی خرید کر 175 روپے میں نہیں بیچ سکتا یہی وجہ ہے کہ چینی مارکیٹ میں نایاب ہو گئی ہے۔