خواتین کی بدلتی گھریلو عادات، آن لائن کھانے کے رجحان سے طلاقوں اور صحت کے مسائل میں خطرناک اضافہ

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر )بدلتی عادات اور طرز زندگی کے باعث پاکستان کی خواتین نے گھروں میں کھانا پکانا بند کر دیا زیادہ تر خواتین آن لائن کھانا منگواتی ہیں جس کے باعث زیادہ تر خواتین مختلف بیماریوں کا شکار ہو چکی ہیں گھریلو جھگڑے مرد و خواتین کے درمیان طلاقوں کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ طلاقوں کی شرح ہو گئی ہے ایک ہی دن میں خواتین نے 200 سے زائد طلاق کے کیس دائر ہوئے ذرائع کے مطابق یہ بڑھتے ہوئے لڑائی جھگڑے خواتین کا گھر میں کام نہ کرنا ہے جو ان کی صحت کے لیے مضر صحت ہو چکا ہے ، ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شہروں میں زیادہ تر روٹی تندور سے آتی ہے جبکہ دیہاتوں میں زیادہ تر خواتین خود کام کرتی ہیں صبح سے لے کر شام تک ان کے ورزش ہوتی رہتی ہے.

جس کے باعث انہیں صحت سے متعلقہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر خواتین کا بچوں کی پیدائش کے دوران شہروں میں آپریشن ہوتے ہیں جبکہ دیہاتوں میں زیادہ تر خواتین ہسپتال کی بجائے گھروں میں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے کام نہ کرنے سے خواتین کی صحت خراب ہو جاتی ہے جس کے باعث انہیں ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے خواتین کے گھر میں کھانہ نہ بنانے کے باعث آن لائن کمپنیوں نے کاروبار شروع کیا سب سے زیادہ ان لائن کھانے پینے کیا سامان منگوایا جاتا ہے کام نہ کرنے کے باعث ان کی صحت پر اس قدر اثرات پڑھ چکے ہیں کہ وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تیار خوراک اور گراسری آئٹمز کی ترسیل کا کام کرنے والی کمپنی فوڈ پانڈا کا 70 فیصد کاروبار فوڈ ڈیلیوری پر منسلک ہے ۔ کمپنی ملک کے 35 مختلف شہروں میں فوڈ ڈیلیوری جبکہ 12 شہروں میں گراسری کی ڈیلیوری کا کاروبار کر رہی ہے۔

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کی ڈیلیوری کمپنی ہیرو کی ذیلی کمپنی فوڈ پانڈا 2016 میں پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہوئی اور کمپنی کی جانب سے گزشتہ ایک دہائی کے دوران 100 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس میں کچن انفراسٹرکچرز پر کی جانے والی 2.3 ملین یورو کی سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔ فوڈ پانڈا کی جانب سے مالی سال 2024 کے دوران قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں 9.76 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔کمپنی 50 ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ رائیڈرز کے ذریعے تیار کھانے اور اشیائے خوردونوش کی ترسیل کا کام سر انجام دے رہی ہے جن میں سے روزانہ 17 تا 18 ہزار رائیڈر کی بنیاد پر کام کرتے ہیں اور فل ٹائم رائیڈرز کی ماہانہ آمدن 48 تا 50 ہزار روپے ہے۔

فوڈ پانڈا کے سی ای او منتقا پراچہ نے کہا ہے کہ فوڈ پانڈا میں خواتین رائیڈرز بھی کام کر رہی ہیں تاہم زیادہ تر خواتین گھر میں کھانے پینے کی اشیا کی تیاری کے کاروبار سے منسلک ہیں اور اس وقت پاکستان میں 7 ہزار سے زائد مرد اور خواتین گھروں میں کھانا تیار کر کے فوڈ پانڈا کے ذریعے اپنے صارفین تک پہنچا رہے ہیں جن میں 75 فیصد خواتین شامل ہیں اور وہ ماہانہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے کی اوسط آمدن کماتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو کچن کے کاروبار سے منسلک خواتین کی نصف تعداد پہلی مرتبہ کسی کاروبار سے منسلک ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کوڈ 19 اور صارفین کے اخراجات میں تبدیلی ، بدلتی ہوئی عادات اور طرز زندگی کے باعث تیار کھانے اور گراسری مصنوعات کی ڈیلیوری کے کاروبار میں گزشتہ چند سال کے دوران خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گراسری ڈیلیوری کے اوسط آرڈر کی شرح800 تا 900سے بڑھ کر 2000تا 2200 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ فوڈ ڈیلیوری کے ایک اوسط آرڈر کی شرح 1200 روپے سے 1500 روپے تک بڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غذائی اشیا کی آن لائن ڈیلیوری کے کاروبار میں خاطر خواہ اضافہ کے باوجود ابھی تک گراسری مصنوعات کی ماہانہ خریداری زیادہ تر آف لائن کی جاتی ہے تاہم آئندہ چند سال کے دوران غذائی اشیا کی آن لائن خریداری کے کاروبار میں نمایاں اضافہ متوقع ہے جس سے نہ صرف روزگار کی فراہمی میں اضافہ ہوگا بلکہ خواتین کو مالیاتی طور پر خودمختار بنانے میں بھی مدد ملے گی۔