اسلام آباد(سٹاف رپورٹر )پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم اینڈ ڈی سی)نے غیر ملکی میڈیکل گریجویٹس کی رجسٹریشن سے متعلق اپنی قانونی پوزیشن اور سوشل میڈیا پر زیر بحث خدشات کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس وقت پاکستانی گریجویٹس کی تین کیٹیگریز ہیں جنہوں نے افغانستان، وسطی ایشیائی ریاستوں جیسے کرغزستان، ایران وغیرہ سے ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گریجویٹس نے اپنی تعلیم اس وقت شروع کی جب پی ایم ڈی سی آرڈیننس 1962 اور پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020 نافذ تھے۔ اتوار کو یہاں جاری وضاحت میں پی ایم اینڈ ڈی سی نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے پی ایم اینڈ ڈی سی ایکٹ 2022 منظور کیا اور اپریل 2023 میں نئی کونسل تشکیل دی گئی۔
موجودہ کونسل نے میڈیکل ایجوکیشن کو فروغ دینے کے لیے کئی اصلاحات نافذ کی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف ملک کے اندر میڈیکل ایجوکیشن پر مرکوز ہیں بلکہ ان پاکستانی طلباء کے لیے بھی ہیں جو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ مریضوں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے اور قومی صحت کے نظام کو مضبوط بنایا جا سکے۔پی ایم اینڈ ڈی سی ایکٹ 2022 کے تحت کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ غیر ملکی میڈیکل اداروں کا جائزہ لے اور صرف انہی اداروں کے گریجویٹس کو پروویژنل رجسٹریشن جاری کرے جو پی ایم اینڈ ڈی سی سے تسلیم شدہ ہوں۔ ان گریجویٹس کو پروویژنل رجسٹریشن دی جا سکتی ہے تاہم، انہیں مستقل رجسٹریشن اور آزادانہ پریکٹس کے لیے نیشنل رجسٹریشن ایگزامینیشن لازمی طور پر پاس کرنا ہوگا ، پی ایم اینڈ ڈی سی نے ان غیر ملکی میڈیکل اداروں کا سخت جائزہ لینے کا عمل شروع کیا ہے جہاں پاکستانی طلباء زیر تعلیم ہیں تاہم، کئی ادارے پی ایم اینڈ ڈی سی کے قواعد کے مطابق اہل نہیں پائے گئے اور ان کے گریجویٹس کلینکل سروسز کے لیے پروویژنل رجسٹریشن کے اجراء کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب کی کم از کم دو میڈیکل یونیورسٹیوں نے ایسے گریجویٹس کی تعلیم کے معیار پر سنگین خدشات کا اظہار کیا جس کے پیش نظر موجودہ کونسل نے عوامی مفاد کے اس اہم معاملے پر بڑی باریکی سے غور کیا اور فیصلہ کیا کہ صرف وہی گریجویٹس جن کے ادارے پی ایم اینڈ ڈی سی سے تسلیم شدہ ہیں،
این آر ای سے قبل پروویژنل رجسٹریشن کے اہل ہوں گے۔ باقی تمام گریجویٹس، جو سابقہ پی ایم ڈی سی یا پی ایم سی کے دور میں داخل ہوئے تھے اور جن کے ادارے ابھی تک نئے قانون کے تحت تسلیم شدہ نہیں ہیں، کو پروویژنل رجسٹریشن صرف این آر ای امتحان پاس کرنے کے بعد جاری کی جائے گی۔مزید برآں ،صرف وہ گریجویٹس جو غیر ملکی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں جو ای سی ایف ایم جی کی فہرست میں شامل ہیں، این آر ای میں شرکت کے اہل ہوں گے۔
یہ طریقہ کار دنیا کے کئی ممالک میں نافز ہے۔ یہ بات بھی واضح کی جاتی ہے کہ لائسنس کے اجراء کے لیے امتحان پاس کرنے کی شرط کوئی نئی بات نہیں ہے۔ درحقیقت، یہ شرط 1990 کی دہائی کے اوائل میں پی ایم ڈی سی آرڈیننس 1962 کے تحت نافذ کی گئی تھی۔پی ایم اینڈ ڈی سی واضح طور پر بتاتا ہے کہ غیر ملکی میڈیکل گریجویٹس سے متعلق اس کے تمام فیصلے قانون کے مطابق ہیں اور اس کا مقصد مریضوں کی حفاظت، اہلیت اور معیار کو یقینی بنانا ہے تاکہ کوئی بھی ڈاکٹر آزادانہ پریکٹس سے پہلے سخت جانچ سے گزرے۔ مزید یہ کہ یہ دعویٰ کہ پی ایم اینڈ ڈی سی میں 4000-7000 غیر ملکی گریجویٹس کی رجسٹریشن زیر التوا ہے، حقائق کے منافی ہے۔حقیقت میں پی ایم اینڈ ڈی سی کے پاس ایسے تقریباً 700 کیس زیر التوا تھے جبکہ کئی امیدواروں نے پہلے ہی اپنی فیس این آر ای امتحان کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی درخواست دی ہے۔
پی ایم اینڈ ڈی سی غیر ملکی گریجویٹس کے خدشات سے آگاہ ہے اور نومبر 2025 میں این آر ای امتحان منعقد کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے جس کا تفصیلی شیڈول جلد جاری کیا جائے گا۔ پی ایم اینڈ ڈی سی، ملک میں میڈیکل ایجوکیشن اور پریکٹس کا واحد ریگولیٹر ہونے کے ناطے، مریضوں کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا، ہر گریجویٹ جو عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے، انسانی جان کی ذمہ داری اٹھاتا ہےاور کونسل پابند ہے کہ صرف وہی ڈاکٹر پریکٹس کریں جو مطلوبہ معیار پر پورا اترتے ہوں۔اسی بنا پر کونسل کے موجودہ اقدامات مکمل طور پر قانون کے مطابق ہیں اور ان کا مقصد شفافیت، عوامی مفاد کا تحفظ، اور پاکستان میں میڈیکل پریکٹس کے معیار کو برقرار رکھنا ہے۔
مزید یہ کہ واضح کیا جاتا ہے کہ تقریباً ہر ملک میں غیر ملکی میڈیکل گریجویٹس کے لیے لائسنسنگ یا کوالیفائنگ امتحان پاس کرنا لازمی ہوتا ہے تاکہ مریضوں کی حفاظت اور صحت کے معیار کو یقینی بنایا جا سکے، کیونکہ یہ امتحان اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ہر ڈاکٹر کے پاس مقامی پریکٹس کے لیے اہلیت موجود ہے۔دنیا کے ہر ملک کی طبی اتھارٹیز کو اس بات کا یقین کرتی ھے کہ پریکٹس میں آنے والا ہر ڈاکٹر مریضوں کی محفوظ دیکھ بھال کے لیے ضروری طبی علم اور فیصلہ سازی کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر، امریکہ میں غیر ملکی ڈاکٹروں کو یو ایس ایم ایل ای پاس کرنا لازمی ہے، برطانیہ میں پی ایل اے بی یا جی ایم سی کے منظور شدہ متبادل، کینیڈا میں ایم سی سی کیو ای امتحانات اور پاکستان میں غیر ملکی گریجویٹس کے لیے این آر ای لازمی ہے۔
لائسنسنگ امتحانات تمام گریجویٹس کے لیے منصفانہ اور معیاری طریقہ فراہم کرتے ہیں، چاہے انہوں نے کہاں سے تعلیم حاصل کی ہو۔ یہ امتحانات اس بات کو جانچنے کے لیے ہوتے ہیں کہ گریجویٹس مقامی اصول و ضوابط سے واقف ہیں یا نہیں۔ مریضوں کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ جس ڈاکٹر سے وہ علاج کروا رہے ہیں، اس کی سخت جانچ کی گئی ہے۔ لائسنسنگ امتحانات صحت کے نظام پر اعتماد کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔