سٹیٹ بینک کا شرح سود کو 11 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ، سیلاب سے مالی سال 2026 کے لیے مجموعی قومی پیداوارمیں نمو کی شرح 3.25 تا 4.25 فیصد کی نچلی سطح کے قریب رہنے کا امکان

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)سٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے شرح سود کو 11 فیصدکی سطح پربرقراررکھتے ہوئے کہاہے کہ مالی سال 2026 کی دوسری ششماہی میں مہنگائی 5 تا 7 فیصد کے ہدف سے اوپر جا سکتی ہے لیکن مالی سال 2027 میں دوبارہ ہدفی سطح پر آ جائے گی، سٹیٹ بینک کے مطابق مون سون کے حالیہ سیلاب سے مالی سال 2026 کے لیے ترقی کے مجموعی اندازے کمزورہوئے ہیں، خریف کی فصلوں کو نقصان جبکہ ربیع کی فصلوں کے امکانات بہتر ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر مالی سال 2026 کے لیے مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) میں نموکی شرح 3.25 تا 4.25 فیصد کی نچلی سطح کے قریب رہنے کا امکان ہے۔یہ بات سٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعدجاری ہونے والے بیان میں کہی گئی ہے۔بیان میں بتایاگیاہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے اپنے اجلاس میں شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔

کمیٹی نے نوٹ کیا کہ جولائی اور اگست میں افراط زر نسبتاً معتدل رہا جبکہ بنیادی افراطِ زر میں کمی کا عمل سست رفتاری سے جاری ہے۔ بلند فریکوئنسی معاشی اشاریوں، خصوصاً لارج سکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) نے معاشی سرگرمیوں میں مزید بہتری ظاہر کی تاہم حالیہ سیلاب کے باعث قریبی مدت کا معاشی منظرنامہ کچھ حد تک بگڑ گیا ہے۔ زرعی شعبے پر سیلاب کے اثرات عارضی مگر شدید نوعیت کے ہیں جو مجموعی مہنگائی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں، اس دوران، معاشی ترقی کی شرح بھی پہلے کے اندازوں کے مقابلے میں کچھ کم رہنے کی توقع ہے۔ بدلتے ہوئے معاشی حالات اور سیلاب سے پیدا ہونے والے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی نے قیمتوں کے استحکام کے لیے شرح سود برقرار رکھنا مناسب سمجھا۔کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ اس وقت معیشت پہلے کے بڑے سیلابوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے اور منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔

کم افراط زر، اندرونی طلب میں معتدل اضافہ اور عالمی سطح پر نسبتاً بہتر کموڈٹی قیمتوں کے باعث اس بار افراط زر اور بیرونی کھاتوں پر دبائو محدود رہنے کی امید ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں مربوط اور محتاط زری و مالیاتی پالیسیوں کے نتیجے میں بنائے گئے ذخائر کو برقرار رکھنے پر زور دیا گیا تاکہ معیشت مزید جھٹکوں کا مقابلہ کر سکے اور پائیدار بنیادوں پر ترقی ممکن ہو۔ کمیٹی نے گزشتہ اجلاس کے بعد کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا جن میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا مستحکم رہنا، صارفین اور کاروباری طبقے کی مہنگائی کے خدشات میں اضافہ، ایف بی آر کی محصولات کا ہدف سے معمولی کمی مگر سال بہ سال نمایاں بہتری اور امریکا کی درآمدی ٹیرف پالیسی میں تبدیلی کے باعث عالمی تجارتی غیر یقینی صورتحال میں کمی شامل ہیں۔ کمیٹی نے کہا کہ حقیقی شرح سود مہنگائی کو درمیانی مدت کے ہدف (5 تا 7 فیصد) میں رکھنے کے لیے کافی مثبت ہے اگرچہ قلیل مدتی اتار چڑھائو برقرار رہ سکتا ہے۔ مشینری درآمدات، آٹو موبائل و سیمنٹ کی فروخت، نجی شعبے کے قرضے اور کاروباری اعتماد مسلسل معاشی سرگرمیوں میں بہتری ظاہر کر رہے ہیں۔

بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں مالی سال 2025کی آخری سہ ماہی میں اضافہ ہواہے تاہم سیلاب کے باعث مالی سال 2026 کے لیے نمو کی پیش گوئی کمزور ہوئی ہے۔ خریف کی فصلوں کو نقصان ہوا ہے جس کے اثرات مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبوں پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ البتہ ربیع کی فصلوں کے امکانات بہتر ہیں۔ اندازہ ہے کہ مالی سال2026 میں جی ڈی پی گروتھ 3.25 تا 4.25 فیصد کی نچلی سطح کے قریب رہے گی۔ جولائی 2025 میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 254 ملین ڈالر رہا جس کی وجہ درآمدات میں اضافہ اور ترسیلات میں کمی تھی۔ اس کے باوجود سٹیٹ بینک کے ذخائر 14.3 ارب ڈالر پر مستحکم رہے۔ سیلاب کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھ سکتا ہے، مگر امریکا کی منڈی تک بہتر رسائی اور ترسیلات زر میں اضافہ اس اثر کو جزوی طور پر پورا کر سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر کرنٹ اکائونٹ خسارہ مالی سال 26 میں جی ڈی پی کے 0 تا 1 فیصد کی حد میں رہنے کا امکان ہے جبکہ سرکاری مالیاتی ذرائع سے متوقع رقوم ملنے پر ذخائر دسمبر 2025ء تک 15.5 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔

مالی سال 2026 کے پہلے دو ماہ میں ایف بی آر کی محصولات میں 14.1 فیصد اضافہ ہوا۔ سٹیٹ بینک کے 2.4 ٹریلین روپے کے منافع کی منتقلی اور پٹرولیم لیوی سے پہلا سہ ماہی پرائمری سرپلس نمایاں رہے گا۔ تاہم کمیٹی نے نوٹ کیا کہ سیلاب سے اخراجات میں اضافہ اور محصولات کی رفتار میں کمی ہوسکتی ہے۔ کمیٹی نے زور دیا کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی اصلاح کی جائے تاکہ سماجی اور ترقیاتی اخراجات کے لیے مزید گنجائش پیدا کی جا سکے۔زروسیع (ایم 2) کی شرح نمو اگست کے آخر تک 13.9 فیصد رہی۔ ذخائر میں اضافہ اس نمو کا بڑا سبب رہا جبکہ کرنسی کی گردش میں وقتی کمی آئی۔ سرکاری قرضوں میں کمی کے ساتھ نجی شعبے کو قرضوں میں 14.1 فیصد اضافہ ہوا جو ٹیکسٹائل، ٹیلی کام اور ہول سیل و ریٹیل ٹریڈ جیسے شعبوں میں نمایاں رہا۔ امکان ہے کہ نجی شعبے کے قرضوں کی طلب اپنی حالیہ رفتار برقرار رکھے گی۔

جولائی میں افراط زر 4.1 فیصد جبکہ اگست میں 3 فیصد رہا۔ یہ زیادہ تر خوراک اور توانائی کی قیمتوں کے اتار چڑھائو کا نتیجہ تھا جبکہ بنیادی افراط زر کم ہوتا رہا۔ کمیٹی نے کہا کہ سیلاب نے خوراک کی قیمتوں پر قریبی مدت میں غیر یقینی صورتحال بڑھا دی ہے۔ روزمرہ استعمال کی قیمتوں کی حساس اشاریہ میں پہلے ہی سبزیوں اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے، مگر بجلی کے نرخوں میں کمی اس اثر کو جزوی طور پر کم کر سکتی ہے۔ کمیٹی نے اندازہ لگایا کہ مالی سال 26 کی دوسری ششماہی میں مہنگائی ہدف (5 تا 7 فیصد) سے اوپر جا سکتی ہے، لیکن مالی سال 27 میں دوبارہ ہدفی سطح پر آ جائے گی۔ کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ یہ منظرنامہ کئی خطرات کا شکار ہے جن میں سیلاب کی شدت، عالمی سطح پر کموڈٹی قیمتوں کا اتار چڑھائو اور توانائی کی قیمتوں میں غیر متوقع ایڈجسٹمنٹس شامل ہیں۔