چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ 2 بجے تک گورنر پنجاب صدر پاکستان کو وجوہات لکھ کر بھیج دیں تو ٹھیک ہے، 2 بجے تک گورنر نے کوئی فیصلہ لے لیا تو ٹھیک ورنہ کورٹ اپنا حکم جاری کرے گی۔
حمزہ شہباز سے حلف نہ لینے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ گورنر پنجاب کے ساتھ میٹنگ کی، دو، تین وجوہات عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، گورنر کے ساتھ اسپیکر اسمبلی حلف لینے کا پابند ہوتا ہے، حمزہ شہباز کی درخواست میں اسپیکر کو فریق نہیں بنایا گیا، گورنر کوئی ربڑ اسٹیمپ نہیں۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ گورنر پنجاب کی جانب سے حلف نہ لینے کا کوئی جواز ہے ؟ صدر نے کہا کہ میں وزیر اعظم سے حلف نہیں لے سکتا، بیمار ہوں۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ گورنر پنجاب سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب قانون اور آئین کے مطابق نہیں ہوا، ایک خاتون ایم پی اے تشدد کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے سب کچھ روک دیا جائے۔
چیف جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ 21 دنوں سے پنجاب میں حکومت نہیں ہے، آپ کو اندازہ ہے صوبہ کیسے چل رہا ہے ؟ یہ الیکشن بھی جیسے ہوا سب کورٹ کے علم میں ہے، عدالت کے حکم پر چیف منسٹر کا الیکشن ہوا، جس طرح سے چیف منسٹر کے الیکشن میں تاخیری حربے استعمال کیے گئے سب پتہ ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ اس کیس کو پیر تک ملتوی کیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں مہلت دی جائے آپ کو ؟ آپ کے پاس تو اس کے علاؤہ کام ہی نہیں، گورنر پریس کانفرنس کر رہے ہیں تو کیا اس کیس کے لیے ٹائم نہیں ان کے پاس ؟۔