حمزہ شہباز تاریخ کا منفرد وزیر اعلیٰ ہے،مرکز کی حکومت صرف 2 ووٹوں پر کھڑی ہے،دس وزیر داخلہ بھی آجائیں تو قوم کو اسلام آباد آنے سے نہیں روک سکتے، سابق صوبائی وزیر قانون محمد بشارت راجہ کا کیپیٹل نیوز پوائنٹ کو خصوصی انٹرویو

راولپنڈی (سی این پی )پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق صوبائی وزیر قانون بشارت راجہ نے کہا ہے کہ اس وقت جو سیاسی صورتحال چل رہی ہے اس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور پنجاب کا جعلی وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اپنی اکثریت کھو چکے ہیں ،ان خیالات کا اظہار انہوں نے کیپیٹل نیوز پوائنٹ کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز کے پاس نہ ہی قانونی، سیاسی اور نہ ہی آئینی لحاظ سے کوئی جواز موجود ہے کہ وہ پنجاب میں بطور وزیر اعلیٰ کام کریں، میں عددی لحاظ سے اس وقت پنجاب میں جو صورتحال ہے اس میں مسلم لیگ کا وزیر اعلیٰ اکثریت کھو چکا ہے اور اس وقت ایوان میں پاکستان تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہے، ہمارے پاس اس وقت دو آپشنز ہیں، ایک آپشن تو یہ ہے کہ اگر حمزہ شہباز باعزت طور پر اپنے اس منصب سے علیحدہ ہو جاتے ہیں تو یہ ان کیلئے بہتر آپشن ہے ان کیلئے دوسرا آپشن جو ہمارے لئے ہے وہ یہ ہے کہ ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اگر انہیں کہیں کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے پاس اعتماد کا ووٹ لینے کی مطلوبہ اکثریت نہیں ہے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اکثریت کھو چکا ہے اسے اقتدار سے جانا ہے مرکز کی حکومت محض دو ووٹوں پر بیٹھی ہوئی ہے وہ بھی کسی وقت جاسکتی ہے میں پنجاب کی حد تک بات کروں گا یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ جس طرح قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے چیف منسٹر کا الیکشن کرایا ایک مہینے تک اس چیف منسٹر کا حلف نہیں ہوسکا حلف ہونے کے بعد ایک مہینے ہو گیا ہے وہ اپنی کابینہ تشکیل نہیں دے سکے، اب تک وہ پنجاب میں فعال انداز سے چیف منسٹر کا کردار ادا نہیں کرسکا، حمزہ شہباز پنجاب کی تاریخ کا ایک منفرد وزیر اعلیٰ ہے جو ایک مہینے تک حلف نہ لے سکا نہ ہی کابینہ بنا سکا ہے ہاں بہرحال انہوں نے اپنے نام کے ساتھ وزیر اعلیٰ ضرور لکھ لیاہے لیکن اگر انہیں تھوڑی سے بھی آئین و قانون کی پاسداری ہوتی تو وہ یہ غیر آئینی کام نہ کرتے، ہمارے پاس جو اطلاعات ہیں بیورو کریسی نے ان کے احکامات ماننے سے انکار کیا ہوا ہے، سب انتظار کر رہے ہیں الیکشن کمیشن کے فیصلے کا جیسے ہی وہ فیصلہ آتا ہے انشا اللہ یہ فارغ ہو کر گھر چلے جائینگے، اس وقت سپریم کورٹ نے جو سوموٹو لیا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے خلاف کیسز ختم کرانے کی کوشش کر رہے تھے جو سرکاری افسران کیسز پر تھے ان پر دبائو ڈالا جا رہا تھا لہٰذا سپریم کورٹ کا سوموٹو آئین کی بالادستی کا اقدام ہے، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ڈی جی ایف آئی اے اپنا لگوا کر کیسز ختم کرا دے گا یا نیب میں ترامیم کرا لے گا تو سپریم کورٹ نے اس صورتحال کو ختم کردیا ہے، عدالتوں کے فیصلے کا احترام سب پر لازم ہے اگر میرے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے تو یہ میرا حق ہے کہ میں اپیل میں جائوں لیکن میں فیصلہ پر تنقید نہیں کرسکتا، جس فیصلے کی وجہ سے ہمارے مرکز میں حکومت ختم ہوئی ہم نے فیصلے پر تنقید نہیں کی بلکہ فیصلے پر خدشات کا اظہار کیا تھا اور ہم اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کیلئے گئے بھی ہیں، عدلیہ کا کام ہے انصاف کے تقاضے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فیصلہ دینا اور ہمیں اسے تسلیم کرنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ شہباز شریف جس طرح اپنی کابینہ کو لیکر ملک سے باہر گئے یہ میرے لئے بحیثیت پاکستانی باعث شرمندگی تھا، ایک ایسا شخص جسے ہماری عدالت نے سزا دی ہو اور وہ ملک سے باہر ہو اور مفرور ہو ایسے شخص کے پاس وزیراعظم کا جانا انتہائی غلط اقدام تھا، یہ فیصلہ شہباز شریف صاحب کا انتہائی غلط تھا، اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، ہم نے معیشت کو ٹریک پر چڑھا دیا تھا اور یہ بہتری کی جانب جا رہی تھی، اس وقت ڈالر کی جو صورتحال ہے اس ساری صورتحال کی ذمہ داری موجودہ حکومت ہے انہیں پتہ ہونا چاہئے تھا کہ کل جب ہم حکومت میں آئیں گے تو ہمیں اس صورتحال کا سامنا ہوگا اس کیلئے ہمیں اقدامات کرنا ہونگے لیکن اس کے پاس اس کا کوئی چارہ نہیں تھا اور آج پوری قوم ان کی نااہلی کا رونا رو رہی ہے اور یہ بات کوئی بھی ماننے کیلئے تیار نہیں کہ یہ سابقہ حکومت کی وجہ سے ہے، کیونکہ سابقہ حکومت ڈالر جہاں چھوڑ کر گئی تھی آپ ہمیں جتنا مرضی تنقید کا نشانہ بناتے لیکن اب جہاں ڈالر یہ حکومت لے آئی ہے یہ نااہلی ہے قوم اور ملکی معیشت کے ساتھ ظلم ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ جو عمران خان نے کال دی ہے یہ ایک نہیں دس وزیر داخلہ بھی ہوں تو قوم کو اسلام آباد آنے سے نہیں روک سکتے، آج قوم عمران خان کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہو چکی ہے اور قوم کھڑی ہے اپنی عزت اور وقار کیلئے قوم کھڑی اور اسے اب کوئی نہیں روک سکتا۔محمد بشارت کا راجہ کا انٹرویو دیکھنے کیلئے لنک کو کلک کریں۔