یونیورسٹی ٹاؤن ہاؤسنگ سکیم اسکینڈل متاثرین کا آر ڈی اے کے جانبدار اسپیکنگ آرڈر پر شدید ردعمل، شفاف تحقیقات اور جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر )یونیورسٹی ٹاون ہاؤسنگ سوسائٹی کے متاثرین نے ڈی جی آر ڈی اےکےاسپیکنگ آرڈر کو غیر واضح، غیر موثر اور جانبدار قرار دیتے ہوئے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، ڈویلپر کو نیا یا ترمیم شدہ نقشہ جمع کرانے کی ہدایت، اور 75 فیصدترقیاتی کام کا جھوٹا دعویٰ درحقیقت زمینی حقائق کے برعکس اور محض تیس فیصدڈویلپمنٹ کی حقیقت کو چھپانے کی کوشش ہے،یہ اقدامات آرڈی اےکی ممکنہ ملی بھگت اور جانبداری کو ظاہر کرتے ہیں جو بظاہر ڈویلپر کے دباؤ یا کسی ممکنہ فائدے کے عوض شامل کئےگئے ہیں، متاثرین نے مطالبہ کیا کہ اسپیکنگ آرڈر میں شامل ان متنازع نکات کی شفاف تحقیقات یا جوڈیشل کمیشن کے ذریعے جانچ پڑتال کی جائے تاکہ تحقیقات کے بعد متاثرین کو اپنے حقوق مل سکیں، ان خیالات کا اظہار متاثرین کے نمائندگان عمر صدیق خٹک، ارشد حسین زلمی، ملک نثار احمد، بیرسٹر ممتاز بابر، سرفراز چدھڑ ایڈووکیٹ، عاصم شہزاد، ہارون الرشید، شفقت علی اور خالد مسعود باجوہ نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا.

یونیورسٹی ٹاؤن متاثرین کا مزید کہنا تھا کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ملازمین کیلئے ایک رہائشی سکیم خیبر ویلفئیر ہاوسنگ سوسائیٹی (کے ایچ ایس) کا قیام 1992میں ہوا اور آر ڈی اےنے پہلا اور دوسرا این او سی بالترتیب سال 2002 اور 2006 میں جاری کئے۔ اسلام آباد کی فاضل ہائی کورٹ نے ایک کیس میں احکامات دئیے تھے کہ کے ایچ ایس کو کواپریٹو رجسٹرار کے پاس رجسٹرڈ کروا کر سوسائٹی کے انتخاب کروائے جائیں لیکن کے ایچ ایس کے کنوینر عبدالعزیز خان (اسٹینو گرافر علامہ اقبال یونیورسٹی) نے فراڈ کے ذریعے کسی بھی ممبر سے اجازت لئے بغیر خیبر ہاوسنگ سوسائٹی کی فیصل آباد رجسٹرار آفس میں جعلی رجسٹریشن کروائی اور بعد ازاں اسلام آباد میںایس ای سی پی میں رجسٹریشن کے ذریعے اپنے پرائیویٹ بزنس میں تبدیل کر لیا اور اس کا نام یونیورسٹی ٹاون پرائیویٹ لمٹیڈ رکھ دیا اور جعل سازی کے ذریعے آر ڈی اےسے 2021 میں یونیورسٹی ٹاون پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے پہلا این او سی بھی حاصل کر لیا اور مزید یہ کہ پنجاب ہاوسنگ اسکیم ایکٹ 2021 کے برعکس اپنے خود ساختہ قوانین کے ذریعے دھوکہ دہی، لوٹ مار، اور فراڈ کا بازار گرم کر دیا۔ نااہل مسلط ٹاون انتظامیہ اور بنیادی رہائشی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے 33 سال گزرنے کے بعد بھی تاحال صرف 500 گھر بن سکے۔ رہائشیوں کو نت نئے طریقوں سے ڈرایا دھمکایا اور ہراساں کیا جاتا ھے۔ کبھی تھانہ رمنا G11 اسلام آباد تو کبھی پولیس چوکی ڈھوک حمیدہ تھانہ نصیر آباد راولپنڈی کے عملہ کے ذریعے اور کبھی متاثرین پر جھوٹے استغاثہ کے ذریعے دباو ڈالا جاتا رہا۔

متاثرین کی طرف سے سینکڑوں شکایات موصول ہونے پر ڈی جی آر ڈی اےنے متاثرین کے نمائندگان اور یونیورسٹی ٹاون انتظامیہ کے ساتھ 18 ستمبر 2024 کو ایک میٹنگ میں CEO یونیورسٹی ٹاون عبدالعزیز خان سے 27 نکاتی ایجنڈہ پر دستخط کروائے اور تمام شکایات کے ازالے کیلئے ٹائم لائن دی مگر ٹاون انتظامیہ نےڈی دی آر ڈی اےکے احکامات پر عمل نہ کرتے ہوئے کسی ایک شکایت کا بھی ازالہ نہیں کیا۔ ٹاون انتظامیہ نےآر ڈی اےسے 3454 کنال رقبے کا این او سی منظور کروایا جبکہ ملکیت صرف 2350 کنال کی ہے لہذا 3000 سے زائد پلاٹس کی فائلیں بوگس ہیں اور متاثرین سے غیر قانونی طور پر ایڈیشنل ڈویلپمنٹ چارجز، LPG پلانٹ چارجز، Litigation چارجز، Miscellaneous چارجز وصول کرتے رہے اور ایک دیگر متصل سوسائیٹی کو بیچی گئی زمین پر نقشہ بنا کر متاثرین کو بھی فائلیں بیچیں جو بعد اذاں غیر قانونی طور پر کینسل کر دی گئیں۔ تاہم RDA نے بعد از تحقیقات ٹاون انتظامیہ پر دھوکہ دہی اور فراڈ کی FIR نمبر 597/25 زیر دفعات 420، 468 اور 471 ت پ مورخہ 18 مارچ 2025 کو تھانہ نصیر آباد راولپنڈی میں درج کروائی مگر ٹاون انتظامیہ نےضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی جو کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی جناب اکرام اللہ چوہدری کی عدالت سے 7 مئی 2025 کو خارج ہو گئی اور ملزمان مفرور ہو گئے۔

بعد اذاں ملزمان نے لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ سے ضمانت کیلئے رجوع کیا لیکن فاضل عدالت نے معاملہ DG RDA کے اسپیکنگ آرڈرز کے ساتھ مشروط کر دیا جو کہ تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی ٹاون انتظامیہ اور متاثرین کو سن کر جاری کرنا تھا۔ 23 اور 24 جون 2025 کو DG RDA نے ٹاون انتظامیہ اور متاثرین کے ساتھ میٹنگ کی اور متاثرین کو یقین دلوایا کہ ان کو ہر ممکن ریلیف دلوایا جائے گا۔ مگر 30 جون 2025 کو آر ڈی اے کی جانب سے جاری کردہ اسپیکنگ آرڈر، اگرچہ فاضل لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے احکامات کی تعمیل میں تیار کیا گیا، مگر یہ یونیورسٹی ٹاؤن کے متاثرین کو کوئی حقیقی یا قابلِ عمل ریلیف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ 16 جولائی 2025 کو فاضل عدالت نے ملزمان کی ضمانت 30 جولائی 2025 تک بڑھا دی ھے۔

RDA کے وکیل نے معزز عدالت سے آئندہ سماعت کے لیے مہلت مانگی ہے تاکہ اسپانسر سے اسپیکنگ آرڈر پر عملدرآمد کروایا جا سکے۔ تاہم، اس تمام صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ RDA ماضی کی ریگولیٹری ناکامیوں سے بچنے، یونیورسٹی ٹاؤن کی بے ضابطگیوں کو بعد از وقت قانونی شکل دینے، فیسیں جمع کرنے اور ایک مصنوعی پیش رفت ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری جانب متاثرین کے اصل مسائل پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا رہا، بلکہ یہ خدشہ ہے کہ ایف آئی آر سمیت دیگر قانونی معاملات میں بھی یونیورسٹی ٹاؤن انتظامیہ کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔

لہٰذا، ہمیں نہ صرف نئی رِٹ پٹیشن دائر کرنی چاہیے بلکہ موجودہ عدالتی سماعتوں میں بھی بھرپور تیاری اور مستقل دباؤ کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کرتے رہنا ہوگا تاکہ انصاف کے حصول کی جدوجہد مؤثر اور مسلسل جاری رہے۔ متاثرین نے چئیر مین NAB کو بھی باقاعدہ طور پر درخواستیں جمع کروا دی ہیں تاکہ تحقیقات کے بعد متاثرین کو اپنے حقوق مل سکیں، بعد ازاں متاچرین نے پریس کلب کے باہر یونیورسٹی انتظامیہ کیخلاف اپنے حقوق میں مظاہرہ بھی کیا.