لاہور (سٹاف رپورٹر ) چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ انسانیت نے جب کروٹ لی تو عوام میں شعور پیدا ہوا اور یہ احساس جاگا کہ سلطنت عوام کی طاقت سے پروان چڑھتی ہے، عوام کی طاقت سے چلنے والے ممالک نے دنیا کا رخ موڑ دیا، صوبے بڑھنے سے کسی کا ذاتی فائدہ نہیں ہو گا، گورننس بہتر اور اخراجات کم ہوں گے چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے پنجاب یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریٹر میں ملکی نجی یونیورسٹیز “سپ ایپ” کے زیر اہتمام سیمینار بعنوان “2030 کا پاکستان، چیلنج، امکانات اور نئی راہیں”، سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں پیسہ اور سلطنت بادشاہوں کے لیے حاصل کی جاتی تھی، ڈھائی سو سال قبل دنیا میں مختلف سلطنتیں اور بادشاہتیں قائم تھیں اور علاقے فتح کر کے سلطنتوں کو وسیع کیا جاتا تھا تاہم وقت کے ساتھ ایسے ممالک وجود میں آنے لگے جو عوام کی طاقت سے چلتے ہیں ، میاں عامر محمود نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ آئی بی اے میرا اپنا انسٹیٹیوٹ ہے، میں نے یہیں سے تعلیم حاصل کی اور یہاں ناظم بھی رہا ہوں، عوامی شعور اور طاقت ہی وہ بنیاد ہے جس نے دنیا کے سیاسی اور سماجی نظام کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ وقت کے ساتھ ایسے ممالک وجود میں آئے جو عوام کی طاقت سے چلتے ہیں، عوام اپنے ملک سے اس لیے محبت کرتے ہیں کیونکہ وہاں ان کے حقوق کی بات کی جاتی ہے انہوں نے کہا ہے کہ آج ہم پولیٹیکل سائنس کی مختلف کتابوں میں وہ اصول پڑھتے ہیں جن پر کسی مملکت کی بنیاد رکھی جاتی ہے، جن میں 7 بنیادی اجزا شامل ہیں، ممالک نے فیصلہ کیا کہ عوام تک ویلفیئر پہنچانی ہے اور انتظامی یونٹس کو تقسیم کرنا ہے، اسی مقصد کے تحت صوبائی حکومتوں کا قیام عمل میں آیا میاں عامر محمود نے ماضی کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ مشرقی پاکستان کے قیام کے وقت وہاں آبادی تقریباً تین کروڑ تھی اور چار صوبے موجود تھے جبکہ آج پنجاب کی آبادی 2 کروڑ سے بڑھ کر تقریباً 13 کروڑ تک پہنچ چکی ہے چیئرمین پنجاب گروپ نے بلوچستان کی محرومیوں پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں سے گیس نکلتی ہے لیکن وہاں کے عوام کو اس کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جاتی، ایک مضبوط اور پائیدار ریاست کے لیے عوامی حقوق، مساوات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم لازمی ہے میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ عوامی ریاست کی بنیاد عوام کے حقوق اور مساوات پر رکھی جاتی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث آج ہم ایسے مقام پر ہیں جو قابل فخر نہیں چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا نے اپنے ممالک کو انتظامی طور پر تقسیم کیا اور مضبوط بنایا مگر پاکستان نے خود کو اس طرح آرگنائزڈ نہیں کیا انہوں نے کہا ہے کہ آج پنجاب کی آبادی 13 کروڑ کے قریب، خیبرپختونخوا کی آبادی 4 کروڑ سے زائد اور بلوچستان کی آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑ (14.8 ملین) ہو چکی ہے مگر وسائل اور حقوق کی منصفانہ تقسیم یقینی نہیں بنائی گئی۔
میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ ماضی میں مشرقی پاکستان 3 کروڑ کی آبادی اور چار صوبوں پر مشتمل تھا لیکن موجودہ پاکستان میں صوبے اپنی بڑھتی آبادی اور مسائل کے باوجود نئے انتظامی یونٹس میں تقسیم نہیں ہو سکے چیئرمین پنجاب گروپ نے واضح کیا کہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کسی بھی ملک کی ترقی کا سب سے اہم معیار ہے، عوام ملک سے اس وقت محبت کرتے ہیں جب ان کے حقوق کا تحفظ اور فلاح و بہبود یقینی بنائی جائے میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ پاکستان ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس اور دیگر عالمی اشاریوں میں نچلے نمبروں پر ہے جو تشویشناک امر ہے، دنیا میں 193 ممالک میں پاکستان کا نمبر 168 ہے اور ہم سے پیچھے صرف وہ ممالک ہیں جہاں مسلسل خانہ جنگی جاری ہے چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ کوئی مہذب اور ترقی یافتہ ملک ہم سے پیچھے نہیں جو لمحہ فکریہ ہے، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے حوالے سے بھی پاکستان کا نمبر 140 ہے جو کسی طور قابل فخر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو آگے بڑھنے اور بہتر مستقبل کے لیے کس قسم کے مواقع فراہم کر رہے ہیں؟ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میرے نزدیک سب سے اہم ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ ملک اپنے عوام کو کتنی سہولتیں اور مواقع دے رہا ہے میاں عامر محمود نے واضح کیا کہ آج بات کسی تھیوری کی نہیں بلکہ حقائق کی ہے، دنیا کے ترقی یافتہ اور فلاحی ممالک اپنے عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کر کے آگے بڑھ رہے ہیں مگر پاکستان اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر ہیومن ڈویلپمنٹ، قانون کی بالادستی اور بھوک جیسے اشاریوں میں انتہائی نچلے نمبروں پر ہے جو لمحہ فکریہ ہے میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ قانون کی بالادستی کے حوالے سے ہونے والے سروے میں پاکستان 142 ممالک میں 129 ویں نمبر پر ہے جبکہ گلوبل ہنگر انڈیکس میں 129 ممالک میں پاکستان کا نمبر 109 ہے، ہمارے لوگ آج بھی بھوکے سو رہے ہیں اور یہ حکومت اور لوکل گورنمنٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ کوئی بھوکا نہ سوئے انہوں نے کہا ہے کہ اگر چالیس گھروں تک کوئی ہمسایہ بھوکا سوئے تو اس کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو آگے بڑھنے کے لیے کون سے مواقع فراہم کر رہے ہیں؟ چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ پاکستان میں بھوک، تعلیم اور روزگار کے حوالے سے صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور اگر آج ہم نے آنکھ نہ کھولی تو مستقبل مزید خطرناک ہو گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ ملک میں 44 فیصد بچے سٹنٹڈ گروتھ کا شکار ہیں جبکہ تقریباً آدھے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا ہی نہیں ملتا، 25 ملین بچے آج سکول نہیں جا رہے اور دنیا میں ہمارے علاوہ کوئی ایسا ملک نہیں جس میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہوں میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں 64 فیصد نوجوان شامل ہیں لیکن بڑی تعداد نوکریاں حاصل کرنے سے قاصر ہے، آپ اتنے زیادہ بے روزگار نوجوانوں کا کیا کریں گے؟ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس معاشرے میں رہنے جا رہے ہیں چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ دنیا میں ملکوں کا سائز جس طرح بڑھتا گیا انہوں نے خود کو یونٹس میں تقسیم کیا، آزادی کے وقت بھارت کی آبادی 34 کروڑ تھی اور 9 ایڈمنسٹریٹو یونٹس تھے، آج بھارت کی ایک ارب 45 کروڑ کی آبادی ہے، 28صوبے ہیں، 9 یونین ٹیریٹیریز ہیں میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بھارت کے 37 ایڈمنسٹریٹو یونٹس ہیں، ہمارے پاس شروع میں بھی 4 صوبے تھے اور اب بھی اتنے ہی ہیں، چائنہ کے 6 ایڈمنسٹریٹو یونٹس تھے اب 34 ہیں، انڈونیشیا کے صوبے 38 ہیں، کینیڈا کے 4 صوبے تھے آج 10 ہیں، اسی طرح ایران کے 23 سے 31 صوبے ہو گئے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ہم جہاں کھڑے تھے اب بھی وہیں ہیں، ہمیں کہا جاتا ہے صوبے پر بات نہ کریں، صوبوں نے مل کر ملک بنایا ہے، بھارت میں بھی صوبوں نے ہی ملک بنایا تھا، بھارت میں ہر پانچ سال بعد ایک دو نئے صوبے بن کر سامنے آجاتے ہیں۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ لاہور ایک ڈویژن ہے اس میں قصور اور شیخوپورہ شامل ہے، اضلاع کو ملا کر ایک ڈویژن بنتا ہے، ہم کہہ رہے ہیں اس ہی کمشنر کو چیف سیکرٹری بنا دیں، ہم کہہ رہے ہیں اس ہی آر پی او کو آئی جی بنا دیں میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بار بار سوال ہوتا ہے کہ ڈویژن کو صوبہ بنائیں گے تو 33 صوبے بن جائیں گے، سوال ہوتا ہے 33 صوبوں کے وسائل کہاں سے لائیں گے، ہم نے ریسرچ کی ہے ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیں گے تو اخراجات کم ہوں گے بڑھیں گے نہیں، صوبہ 13 کروڑ سے کم ہو کر 3 کروڑ پر آجائے تو ایڈمنسٹریٹو اخراجات بھی کم ہوں گے انہوں نے کہا ہے کہ جو تمام انڈیکسز یہاں بیان کیے ان میں ہم آخری نمبروں پر ہیں، ہم پڑھائی میں سب سے آخری نمبروں پر ہیں، ہمارے ہاں بھوک بھی بہت ہے، بچے سٹنٹڈ گروتھ پر بڑے ہو رہے ہیں، ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں، خاص طور پر صوبوں کے پاس بالکل نہیں، نئے صوبوں میں منتخب سیٹ اپ ہو گا میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ پبلک ویلفیئر کیلئے ہمیں ان تمام سالوں میں لیڈرشپ نہیں مل سکی، اتنے بڑے سسٹم میں لیڈر نکل کر آنا مشکل کام لگتا ہے، کچھ خاندان ہیں جہاں سے لیڈر آسکتا ہے، اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھی ایسے وسائل ہیں کہ وہ کسی کو آگے بڑھا سکتے ہیں چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ یہاں لیڈرشپ کی کوئی آرگینک گروتھ کا سسٹم نہیں ہے، اتنے بڑے سسٹم میں شاید ہو ہی نہیں سکتا، ایک عام آدمی سیاست میں خاص حد سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا، سسٹم عام آدمی کو سپورٹ کرتا ہی نہیں، ارشد ندیم نے گولڈ میڈل لیا، اس نے پہلے اس سسٹم کو ہرایا ، انہوں نے کہا ہے کہ ہائی کورٹس اور ڈسٹرکٹ کورٹس کی حالت دیکھ لیں، ایک ایک جج کے پاس سینکڑوں کیسز ہیں، جج کسی کیس میں پوری توجہ دے ہی نہیں سکتا، اس ملک میں دیوانی اور سول لیٹی گیشن کیس ختم ہی نہیں ہوتے، جو عدالت میں چلا جائے اس کی زندگی برباد ہوجاتی ہے، قتل کے کیس میں 16 سے 18 سال لگتے ہیں، اس دوران قاتل اور مقتول دونوں خاندان برباد ہوجاتے ہیں میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ ہمارے جج نالائق نہیں لیکن کام کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ وہ کام کر ہی نہیں سکتے، یہاں گورننس کی بات ہورہی ہے، گورنمنٹ سے متعلق سوال کا جواب متعلقہ حکومت دے سکتی ہے چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ ملک میں انتظامی ڈھانچے کی سادگی اور چھوٹے صوبوں کی تشکیل وقت کی ضرورت ہے جس سے اخراجات کم جبکہ ترقیاتی بجٹ میں اضافہ ممکن ہوگا۔
انہوں نے کہا ہے کہ اگر کمشنر کو چیف سیکرٹری اور آر پی او کو آئی جی بنا دیا جائے تو سپروائزری ڈھانچے میں نمایاں کمی آئے گی اور حکومتی اخراجات گھٹ جائیں گے، اوپر جتنی بھی سپروائزری ہے وہ ختم ہو جائے گی اور خرچ کم ہو جائے گا میاں عامر محمود نے پنجاب اور بلوچستان کے اخراجات کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس اور سیکرٹریٹ کا خرچ پنجاب اور بلوچستان میں زمین آسمان کا فرق رکھتا ہے، بلوچستان کا بجٹ اور آبادی پنجاب سے کم ہے اس لیے اخراجات بھی کم ہیں انہوں نے کہا ہے کہ چھوٹے صوبے بنانے سے نہ صرف آبادی اور بیوروکریسی کا بوجھ تقسیم ہوگا بلکہ بجٹ کا توازن بھی بہتر ہو گا، چھوٹے صوبے بنانے سے اخراجات کم ہوجائیں گے اور ڈویلپمنٹ بجٹ شاید بڑھ جائے چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ ایڈمنسٹریٹو یونٹس اس طرح نہیں بنیں گے کہ کوئی بیوروکریٹ اس کا سربراہ ہو گا، ایڈمنسٹریٹو یونٹس میں منتخب اسمبلی ہو گی، نئے ایڈمنسٹریٹو یونٹس میں منتخب وزیراعلیٰ ہوگا، ایڈمنسٹریٹو یونٹس میں بادشاہ وزیراعلیٰ ہی ہوگا، ہم نے پاکستان میں لوکل گورنمنٹ کے بہت تجربات کیے لیکن کوئی بھی نہیں چلا میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ کوئی صوبائی حکومت یہ برداشت ہی نہیں کرتی کہ اس کے اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوں، ہم نے 78 سال اس ہی چیز میں لگا دیئے کہ آج لوکل گورنمنٹ ہے کل نہیں، صوبوں میں کوئی تو ایک وزیراعلیٰ ہو گا جو اپنے صوبے میں لوکل گورنمنٹ کو چلا کر دکھا دے گا، اگر لیڈر شپ ہوگی تو سب چیزیں بہتر ہوجائیں گی انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے پاس لیڈرشپ گروتھ کا کوئی آرگینک طریقہ ہی نہیں ہے، 33 صوبوں میں دو چار یا 6 وزیراعلیٰ تو ایسے نکلیں گے جو اچھا کام کریں گے، اگر ایسے لوگ نکلیں گے تو نیشنل لیول پر آگے بڑھیں گے، لوگ کہیں گے سرگودھا، پنڈی یا کراچی کے وزیراعلیٰ نے یہ بہت اچھا کام کیا چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ بھارت میں چائے بنانے والا وزیراعلیٰ بن گیا، اس نے اپنے صوبے میں کام کیا، نریندرمودی نے اپنے صوبے میں کام کیا اس لیے اس کی گروتھ ہوئی میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بھارت میں نریندر مودی نے جب مہم شروع کی تو پورا کارپوریٹ انڈیا اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا، نریندر مودی نے گجرات میں لوگوں کیلئے کام کیا تھا، بی جے پی اکثریت پارٹی بن گئی اس کو اتحادیوں کی ضرورت ہی نہیں پڑی، ایل کے اڈوانی کہیں نظر ہی نہیں آئے۔
انہوں نے کہا ہے کہ مواقع وہاں ملتے ہیں جہاں آپ لیڈرشپ کا انتخاب کر سکتے ہیں، یہاں ہمارے پاس ایسے مواقع ہی نہیں، کچھ خاندان ہیں جو آئے ہیں، پچھلے وزیراعظم کو اسٹیبلشمنٹ نے بنا دیا تھا، بانی پی ٹی آئی کہا کرتے تھے میری 22 سال کی جدوجہد ہے، میں نے بانی کو کہا آپ کی 22 سالہ جدوجہد 44 سال کی ہو جاتی اگر اسٹیبلشمنٹ پیچھے آکر نہ کھڑی ہوتی میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے یہ سسٹم ہے مگر ہے، صوبے بنیں گے تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے، آج اتنی بڑی آبادی کو پالنا حکومت کیلئے مشکل ہے، گورنمنٹ جب قریب سے آپ کے مسائل دیکھے گی تو ان کو دور بھی کرے گی چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ صوبوں کے پاس اس وقت وسائل کی کوئی کمی نہیں، صوبوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ اس کو خرچ کرنے کی جگہ نہیں، آپ صوبوں کا بجٹ اٹھا کر دیکھیں کیا ہورہا ہے، اتنے پیسے کے باوجود مسائل حل نہیں ہورہے تو پھر مسئلہ کچھ اور ہے انہوں نے کہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری صوبے نہیں لیکر آتے، بیرونی سرمایہ کاری کیلئے وفاقی حکومت پالیسی بناتی ہے، وفاق کی جانب سے بنائی گئی پالیسیز کے مطابق بیرونی سرمایہ کاری آتی ہے، بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کچھ بنیادی لوازمات ہیں، جب تک وہ نہیں ہوں گے کوئی یہاں سرمایہ کاری نہیں کرے گا میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے بہت بڑی چیز آپ کا انصاف کا نظام ہے، اگر آپ یہاں انصاف نہیں دے سکتے تو کوئی باہر سے آکر یہاں کیوں سرمایہ کاری کرے گا، آپ کے فارن ایکسچینج ریزرو کل 44 بلین ڈالرز ہیں، آپ کے پاس تو پرافٹ واپس کرنے کیلئے پیسے بھی نہیں۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک بھی ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی نہیں، یہاں آنا کس نے ہے ابھی تو لوگ یہاں سے جارہے ہیں، پاکستان کی آبادی 64 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، ایک فیصد سے بھی کم نوجوان یونیورسٹیز تک پہنچتے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ہم سے کسی کا بھی الیکشن لڑنے کا پروگرام نہیں، ہم یہاں کھڑے ہوکر نوجوانوں کی بات کر رہے ہیں، میں پاکستان کے نوجوانوں اور عوام میں شعور لیکر آنا چاہتا ہوں، آپ وہ ایک فیصد نوجوان ہیں جو کالجز اور یونیورسٹیز تک پہنچے ہیں، نوجوانوں پر ملک کی ذمہ داری اتنی ہی عائد ہوتی ہے، پالیسیز جب درسگاہوں میں بننا شروع ہوجائیں گی ملک کامیاب ہو جائے گا، نوجوان اس پیغام کو آکے لیکر چلیں میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ اپنا ملک جیسے ہمیں عزیز ہے ویسے ہی سندھی، کے پی کے عوام کو بھی عزیز ہے، ہم یہ بتارہے ہیں نئے صوبوں کا فائدہ کیا ہے اور نقصان کیا ہے، ہر کوئی اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر دیکھنا چاہتا ہے، ہماری اس مہم میں کسی کا ذاتی فائدہ نہیں، یہ پہلا قدم ہے جو ہم اٹھار ہے ہیں چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ آج بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے، اگر بلوچستان میں 5 صوبے ہوں گے تو یہ تحریک نہیں چلے گی میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک چل رہی تھی، بھارت نے صوبہ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا، اب وہاں کوئی خالصتان کی تحریک نہیں، خالصتان کی تحریک اب صرف انگلینڈ اور کینیڈا میں چل رہی ہے، بھارت میں نہیں چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ ہمارے صوبے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کیلئے تیار نہیں، جب آپ کے 33 صوبے ہوں گے تو ان میں سے 6 وزیراعلیٰ تو لوکل گورنمنٹ کو آگے لائیں گے میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ پاکستان میں 2002 کے بعد جو بھی اسمبلی آئی اس نے 5 سال پورے کیے، درمیان میں وزیراعظم بدلے لیکن اسمبلی چلتی رہی، سیاسی لیڈرشپ کی توجہ حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے عوام کی رائے، ہم عوام میں شعور لانے کی کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہو رہا ہے، ہمارے بچے بھوک سے مر رہے ہیں، بچوں کی گروتھ نہیں ہو رہی، سیاسی لیڈرشپ نے ہمارے جذبات سے چلنا ہے اور ہمارے ووٹ سے آنا ہے انہوں نے کہا ہے کہ آپ کا صوبہ ملکوں سے بھی بڑا ہو تو وہاں یہ سوچ آسکتی ہے، جہاں اکنامک گروتھ ہو رہی ہو وہاں ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوتی، آپ صوبے بنا لیتے ہیں تو لیڈرشپ دستیاب ہو گی اور مسائل ختم ہو جائیں گے، لوکل گورنمنٹ سسٹم آپ کو میونسپل سروسز دینے کیلئے بنتا ہے چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں چند پارٹیوں کا کردار اس لیے ہے کہ ہمارے پاس نئی لیڈرشپ نہیں ہے، ہمارے پاس نئی لیڈرشپ کی گروتھ کیلئے کوئی طریقہ بھی نہیں، اگر 33 صوبے ہوں گے تو کسی کے نہ 33 بیٹے ہوں گے نہ بھائی میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ جب 33 صوبے ہوں گے تو ان کو پولیٹیکل ورکرز کو آگے لانا ہی پڑے گا، پھر ہی گروتھ ہو گی، ہمارے ملک میں ایک این ایف سی ایوارڈ ہے جس کے تحت وسائل تقسیم ہوتے ہیں، این ایف سی ایوارڈ کو کوئی حکومت تبدیل نہیں کرسکتی، این ایف سی آئین کے تحت طے ہے، پاکستان کے پاس جو بھی وسائل آتے ہیں وہ صوبے میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت خود ہی تقسیم ہوجاتے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں بانی پہلا لیڈر نہیں جو جیل میں ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو بہت پاپولر لیڈر تھا جس کو پھانسی ہو گئی، نواز شریف 2 تہائی اکثریت کے ساتھ گورنمنٹ میں آئے، چاروں صوبوں میں حکومت تھی، نواز شریف کو حکومت سے نکالا گیا اور وہ جلا وطن ہو گئے چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے ساتھ یہ کیوں ہورہا ہے؟ سیاستدانوں کا پاپولر ہونا کافی نہیں ہوتا، طیب اردوان کے ساتھ بھی یہی ہونے لگا تھا، ترکیہ میں بھی انقلاب آرہا تھا، ترکیہ میں عوام باہر نکلے اور انہوں نے ناکام بنادیا، عوامی طاقت سے اردوان کے خلاف بنایا گیا منصوبہ ناکام ہو گیا، یہاں یہ نہیں ہوتا انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں بانی کی تاریخ ہو اور ایک لاکھ عوام باہر جا کر بیٹھ جائے تو آپ کا کیا خیال ہے فیصلہ نہیں ہو گا؟، سیاسی لیڈر شپ کیلئے یہ سوچنے کی بات ہے، یہ ساری کی ساری سیاسی لیڈرشپ کسی پروسیس سے گزر کر آئی ہی نہیں ہے چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ ہماری سیاسی لیڈرشپ کی کبھی آرگینک گروتھ ہوئی ہی نہیں، یہ کسی اور دروازے سے آتے ہیں، ہمارے سیاستدان ڈلیور کر ہی نہیں پاتے، سیاستدان لوگوں کی ویلفیئر کیلئے کام کریں تو لوگ ان کیلئے باہر نکلیں گے۔
میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ لوگ ان کیلئے اس لیے باہر نہیں نکلتے کیونکہ انہوں نے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا، سیاسی، الیکٹڈ یا ڈیموکریٹک سسٹم کے سب سے بڑے محافظ عوام ہیں، اگر عوام اس سسٹم کی حفاظت کیلئے نہیں نکل رہے تو کہیں کوئی تو مسئلہ ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے 20 اگست کو سپیریئر یونیورسٹی اور 28 اگست کو یونیورسٹی آف لاہور میں تقریب سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے ملک میں نئے صوبے بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔