نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ” ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے آمدن کیسے بڑھائی جائے” کے موضوع پر ورکشاپ

اسلام آباد(سی این پی)تھنکر جرنلسٹس فورم اور ڈیجیٹل ایسینشل پاکستان کے تعاون سے نیشنل پریس کلب میں 29 ستمبر کو ” ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے آمدن کیسے بڑھائی جائے” کے موضوع پر ورکشاپ منعقد کی گئی جس کے مہمان سپیکر صحافی صدیق جان ، اسداللہ خان اور مہمان خصوصی ایڈیٹر تزئین اختر تھے ۔ایڈیٹر روزنامہ پاکستان نوابزادہ خورشید ,سینئر صحافی اکرام بخاری بھی موجود تھے۔آرگنائزر ڈاکٹر سعدیہ کمال تھیں – ورکشاپ میں ممبران نشینل پریس کلب اور کشمیر جرنلسٹس فورم کے ممبران جاوید الطاف مغل، آصف فاروق، لیاقت مغل، علی حسنین نقوی، نثار کیانی، طلحہ جاوید، سید عمر گردیزی، محمد اقبال اعوان ، اعجاز خان نے شرکت کی- لبنیٰ علی نے شرکاء صحافیوں کو آمدنی بڑھانے کے لیےڈیجیٹل میڈیا اور ویب سائٹ جرنلزم کو استعمال کرنے کے طریقوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اس بارے میں مکمل پریزنٹیشن دی کہ موجودہ دنیا میں ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کی کیا اہمیت ہے اور صحافی اس شعبے میں بہترین کارکردگی کے لیے خود کو کیسے تیار کر سکتے ہیں۔
ایڈیٹر تزئین اختر نے اپنے خلاصہ خطاب میں ساتھی صحافیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو وقت کے مطابق ڈھال لیں۔ صحافت مشنری سے مشینری اور اب مانیٹری بن چکی ہے۔ ہاں ہمیں کرپشن کے خلاف آواز اٹھانا ہے اوربااثر افراد کے آگے نہیں جھکنا ساتھ ہی ساتھ اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے روزی روٹی بھی کمانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم حکومتوں میں اور معاشرے میں موجود غلط کاموں کو اجاگر کریں گے لیکن اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔
تزئین اختر نے کہا کہ سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا سے اپنی روزی کمانے کے بنیادی پلیٹ فارم ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل ہیں۔ آپ کو صرف صحیح علم حاصل کرنا ہوگا کہ انہیں کیسے لانچ کرنا ہے اور کیسے چلانا ہے۔ ویب سائٹس کو اب ایک مکمل ادارہ سمجھا جاتا ہے اور حکومت انہیں تسلیم کرتی ہے۔ ہم کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز میں پہلے ہی ویب سائٹس کو بھی ممبر شپ دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
انہوں نے ویب سائٹس اور یوٹیوب سے کمانے کے لیے 3 جی کی سفارش کی۔ 1- گو گل 2- گورنمنٹ 3- گراؤنڈ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز پر بھی اشتہارات شیئر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ اشتہارات بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں جن کا ذکر میں نے گراؤنڈ کے طور پر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحافت اور ذرائع ابلاغ ہمیشہ ایک شکل سے دوسری شکل میں اور ایک ڈیزائن سے دوسرے رجحانات میں تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ابلاغ ’’صحیفہ‘‘ سے شروع ہوا پھر کتاب (قرآن) پھر تفسیر اور تاریخ کی کتابیں، منا دی، خط، جرائد، اخبارات، ریڈیو، ٹی وی، الیکٹرانک چینلز اور آخر میں سوشل میڈیا ڈیجیٹل میڈیا نے صحافت اور ابلاغ عامہ کے تمام روایتی ذرائع کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ۔ہمیں اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے ہمیں اپنے آپ کو نئے رجحانات اور تقاضوں کے مطابق بدلنا ہوگا۔ انہوں نے ورکشاپ کے منتظمین کی میڈیا میں نئی ​​ٹیکنالوجیز سے صحافیوں کو آگاہ کرنے کی کوششوں کو سراہا۔
انہوں نے اپنے خطاب کا اختتام اس شعر پر کیا
“آئیں نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا –
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں”-
بیورو چیف بول ٹی وی صدیق جان ،اور اینکر پرسن 92 نیوز اسداللہ خان نے
میڈیا انڈسٹری میں جدید ترین ٹیکنالوجیز سے ہم آہنگ رہنے اور سوشل میڈیا، ویب سائٹ کے استعمال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
سوشل میڈیا کے بعد اب روایتی میڈیا کے مقابلے میں ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا تنزولی کا شکار ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1997 میں پاکستان میں 4455 مختلف اخبارات شائع ہوتے تھے جن میں روزنامہ ، ہفتہ اور اورماہنامہ اخبارات شامل تھے لیکن 2020 میں ان اخبارات کی اشاعت کی تعداد کم ہو کر صرف 425 رہ گئی ہے جس میں 346 رونامے ، 17 ہفتہ واراور58 ماہنامے شامل ہیں۔ اسی طرح سرکولیشن 2007 میں 99 لاکھ تھی جو 2020 میں 31 لاکھ رہ گئی۔ آخر میں ڈاکٹر سعدیہ کمال نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا- انھوں نے کہا کہ ایسی ورکشاپ کا انعقاد مستقل میں فائدہ مند ثابت ہو گا-ورکشاپ کے اختتام پر شرکاء میں سرٹیفیکیٹس تقسیم کیے گئے-