راولپنڈی پرائیویٹ سکول مالکان کے محکمہ ایجوکیشن راولپنڈی کی رجسٹریشن برانچ کے انچارج و دیگر پر مالی واخلاقی نوعیت کے سنگین الزامات

راولپنڈی کے پرائیویٹ سکول مالکان نے محکمہ ایجوکیشن راولپنڈی کی رجسٹریشن برانچ کے انچارج و دیگر پر مالی واخلاقی نوعیت کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جب حق کا علم بلند کردیاجائے تو پیچھے مڑ کرنہیں دیکھاجاتا، رجسٹریشن برانچ کاانچارج چار سال سے ذاتی مفادات کی خاطر نجی سکول مالکان کو زچ کیے ہوئے ہے ، حکومتی طریقہ کار کو پس پشت ڈال کر خودساختہ قوانین بنا کر ڈپٹی کمشنر راولپنڈی، سی ای او ایجوکیشن سمیت دیگر افسران کو غلط گائیڈ کررہاہے ، ہزاروں کی تعداد میں سکولوں کی رجسٹریشن کا عمل مخصوص مفاد کی خاطر روک رکھا ہے ، مالکان کو ذاتی طور پر اس دفتر میں طلب کرکے کھڑ ا کردیاجاتاہے جہاں بیٹھنے کے لیے کرسی تک نہیں ، سیکرٹری سکول ایجوکیشن نے معاملے کی اعلی سطح انکوائری کا حکم دے دیاہے ، ہمار ا مطالبہ ہے کہ فوری طورپر انچارج رجسٹریشن برانچ اور اسکے کارخاصوں کو ہٹایاجائے ۔اس امرکا اعلان انھوں نے پریس کانفرنس کے دوران کیا، پریس کانفرنس میں ایجو ریسوس کے سی ای او پروفیسر اعجاز محمود بٹ ، نجی سکولوں کے مالکان وسیم سیفی، عابد حسین ، شاہد جمیل، تسلیم اکرام، ارم ، محبوب لون سمیت دیگر نے انکشاف کیاکہ راولپنڈی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی رجسٹریشن برانچ کے انچارج واے ای او ملک اختر اور اسکے چند کارخاص نے نجی سکولوں پر عرصہ حیات تنگ کررکھاہے ، موصوف نے سکول رجسٹریشن کے لیے خود ساختہ شرائط عائد کی ہوئی ہیں انکا حکم نامہ ہے کہ جب تک تین سو بچے ہائی سیکشن میں نہیں ہونگے اس وقت تک کسی ہائی سکول کو رجسٹرڈ نہیں کیاجاسکتا، ہائیر سیکنڈری سکول کی ڈائریکٹ رجسٹریشن نہیں ہوسکتی، نجی ہاوسنگ سوسائٹیز میں کھلے ہوئے سکولوں پر متعلقہ سوسائٹی سے این او سی لازم کردیاگیا،اس این او سی کی فیس تیس ہزارروپے مقرر ہے ، کینٹ ایریا میں موجود سکولوں کو رجسٹریشن سے دور کردیاگیاانکی رجسٹریشن پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے، کسی بھی نجی سکول کی طرف سے بھجوائے گئے کورئیر کو قبول نہیں کیاجاتابلکہ حکم ہے کہ متعلقہ سکول کا مالک خود کاغذات لے کر پیش ہو، نقشہ منظور شدہ ہوناچاہیے ، حالانکہ دیہی اور شاملاتی علاقوں میں نقشہ کی منظوری ناممکن ہوتی ہے ، رجسٹریشن کی فائلیں کسی کنسلٹنٹ کے بغیر آنی چاہیے ، شرکاءپریس کانفرنس کاکہناتھاکہ لاہور جو پنجاب کا دارا لخلافہ ہے وہاں ایک سال میں 15سوسکولوں کو عبوری ای لائسنس دئیے گئے مگر راولپنڈی میں یہ تعداد صرف 370ہے ، لاہور میں چھ ہزار اور راولپنڈی میں صرف 33سو نجی سکول ہیں ، لاہور میں سی ای او اپرول بقیہ کیس ایک سو ہیں راولپنڈی میں ان کیسوں کی تعداد14سو ہے ، ان اعداد وشما ر سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ کس طرح ایک فرد نے پوری رجسٹریشن برانچ کو ذاتی جاگیر بنا رکھا ہے ، حیرت اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ لاہور میں رجسٹریشن کے لیے ہارڈ کاپی مانگنا جرم ہے جب کہ راولپنڈی میں دس دس بار ہارڈ کاپی مانگی جاتی ہے جو گم بھی ہوجاتی ہیں ، رینول کے کیسوں میں بھی سکول مالکان کو ہارڈ کاپی لے کر پیش ہونے کا حکم دیاجاتاہے ، اس برانچ نے ملک اختر کی کرپشن عروج پر ہے جو پیسہ لگائے سفارش لائے اس کو ایک گھنٹے میں ای لائسنس مل جاتاہے جب کہ سینکڑوں سکول دو دوسال سے ای لائسنس کے لیے چکرپر چکر لگاکر جوتیاں گھسا بیٹھے ہیں، راولپنڈی میں سکول رجسٹریشن کے لیے 27شرائط عائد ہیں ، حیرت کن اور افسوس ناک امریہ بھی ہے کہ رجسٹریشن کے لیے حکومت پنجاب کی طرف سے متعارف کروائے گئے نظام “پیپرس”کو مذاق بنا کر سی ای او ایجوکیشن اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو غلط گائیڈ کیاجارہاہے ، ہم وقتا فوقتا انتظامی افسران کو مشکلات، رجسٹریشن برانچ میں ہونے والی بڑی بدعنوانیوں، اختیارات کے ناجائز استعمال ، من مانیوں اورخود ساختہ شرائط بارے آگا ہ کرچکے ہیں شنوائی نہ ہونے پر سیکرٹری سکول ایجوکیشن پنجاب کو تحریری طورپر آگاہ کیا، ہم مشکور ہیں کہ سیکرٹری سکول ایجوکیشن نے معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اعلی سطح انکوائر ی کا حکم دے کر انچارج رجسٹریشن برانچ ملک اختر اور دیگرافسران کو بمعہ ریکارڈ لاہور طلب کرلیاہے ، کل اس معاملے کی اعلی سطح ابتدائی انکوائری ہوگئی جس کے بعد پیڈاایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی، ہم راولپنڈی میں ایجوکیشن افسران بالخصوص ڈی سی راولپنڈی سے اپیل کرتے ہیں کہ رجسٹریشن برانچ سے ملک اختر کو فوری ہٹایاجائے ، اسکے کارخاصوں کو بھی اس برانچ سے الگ کیاجائے ، تاکہ شفاف انکوائری ہوسکے اور جو غلطی پر ہے اس کو اسکے کیے کی سز امل سکے ، نجی سکولوںسے متعلقہ دونوں تنظیموں نے بھی اپنا کردار ادا نہیں کیاجس کی وجہ سے شاہد اگلے چنددنوں میں نئی تنظیم سامنے آجائے ۔ہم قلم کی خیانت پر جہاد کرنے نکلے ہیں اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے ، جسطرح نجی سکولوں بالخصوص خواتین مالکان وپرنسپل کو تنگ کیاجاتاہے ، اس بارے میں الگ سے حقائق سامنے لائیں گے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کس کردار والے لوگ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی اہم سیٹوں پر بیٹھ کر استحصال کررہے ہیں ۔