مغربی معاشی ماڈل غلط ہے، ہمارا ماڈل مواخات سود سے پاک قرض حسنہ ہے: ڈاکٹر امجد ثاقب

اسلام آباد (سی این پی)اس زمین پر سب کچھ رب کا ہے اور جو رب کا ہے وہ سب کا ہے، مغربی معاشی ماڈل غلط ہے، ہمارا اپنا ماڈل ہے جو درست ہے۔ یہ نمونہ اخوت، مواخات کا ہے جیسا کہ مدینہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان ہوا تھا۔ اخوت نے مواخات کا سفر صرف 10 ہزار روپے سے شروع کیا اور آج ہم 40 لاکھ مستحق افراد میں 2 ارب 20 کروڑ روپے تقسیم کر رہے ہیں جس سے پاکستان کے کم از کم 3 کروڑ غریب افراد مستفید ہوتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے 14 دسمبر کو اسلام آباد میں منعقدہ ڈونرز کانفرنس میں کیا جس میں اخوت کے مستحقین، مخیر حضرات، تاجروں کے نمائندوں اور میڈیا کے سینئر افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

اخوت مستحقین کو چھوٹے قرضے دیتا ہے جو خالصتاً قرض حسنہ ہوتے ہیں جن میں سود نہیں ہوتا۔ اخوت مستحق طلباءکو مفت تعلیم دیتا ہے۔ اخوت نے چکوال میں طالب علموں کے لیے مفت تعلیم کے لیے ایک مکمل یونیورسٹی قائم کی ہے اور جب وہ فیس ادا کرنے کے قابل ہو جائیں تو وہ اپنی مرضی سے فیس جمع کرا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر امجد ثاقب نے شرکاءکے دلوں پر دستک دی – انہیں مشورہ دیا کہ اپنے اردگرد موجود کسی مستحق شخص کا ہاتھ پکڑیں اور اس کی مدد کے لیے جو کچھ ہو سکے کریں۔ خوشیاں بانٹیں گے تو خوش ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک فیصد آبادی کے پاس 99 فیصد دولت ہے جبکہ 99 فیصد آبادی صرف 1 فیصد دولت پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس پر روشنی ڈالی جب انہوں نے 23 سال قبل 10 ہزار روپے سے مواخات کا کام شروع کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بیوہ مدد کے لیے ہمارے دفتر آئی۔ وہ دو سلائی مشینیں خریدنا چاہتی تھی جس سے وہ اپنے بچوں کے لیے روزی کما سکے۔ میں نے اسے 10 ہزار دیے اور بعد میں اسے بھول گیا۔ چھ ماہ بعد وہ واپس آئی۔ پہلی بار وہ آئی تھی وہ افسردہ تھی لیکن اس بار وہ خوش تھی۔ اس نے مجھے 10 ہزار روپے واپس کر دیے اور کہا کہ یہ رقم کسی اور ضرورت مند کو دے دو۔ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا کہ سود اللہ سے جنگ کے مترادف ہے۔ ہمارا سارا نظام سود سے پاک ہے اس لیے ہمارے کام میں برکت ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اخوت کے عطیات دینے والوں کا مطلب صرف مخیر حضرات ہی نہیں ہوتا۔ اخوت ان لوگوں کو بھی عطیہ دہندگان سمجھتا ہے جنہوں نے اخوت سے قرض کا موقع حاصل کیا اور جب وہ کمانے لگتے ہیں تو وہ قرض کی رقم واپس کردیتے ہیں اور اگر ممکن ہو تو اپنی طاقت کے مطابق عطیہ بھی کرتے ہیں۔ شاندار مارکی کا کشادہ ہال عطیہ کرنے والوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اس موقع پر بہت سے مخیر حضرات نے عطیات دینے کا وعدہ کیا