پاک پی ڈبلیو ڈی آئینی ادارہ ہے اسے آئین میں ترمیم کئے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا، راجہ ہارون رشید کی پریس کانفرنس

اسلام آباد (خبر نگار) پاک پی ڈبلیو ڈی کے کنسٹریکٹر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیف کوآرڈینیٹر راجہ ہارون رشید نے کہا ہے کہ پاک پی ڈبلیو ڈی کی پورے ملک میں کھربوں روپے کی زمین اور بلڈنگز کو ہڑپ کرنے کیلئے اسے ختم کرنے کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے،پاک پی ڈبلیو ڈی آئینی ادارہ ہے اسے آئین میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم کئے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا، وزیر اعظم نے تجاویز کیلئے جو کمیٹی بنائی ہے اُس میں لاء منسٹری کا کوئی آفیسر شامل نہیں جس سے لیگل ایڈوائز لی جاسکے، ادارے کو بند کرنے کے بجائے جو کرپٹ پریکٹس میں ملوث افسران کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اوراسے بند کرنے کی بجائے فعال کیا جائے تا کہ لوگوں کی روزی بھی لگی رہے اور ان کی بد دعاؤں سے بھی بچا جا سکے ،اگر ادارے کو زبردستی بند کرنے کی کوشش کی گئی تو عدالت جانے سمیت احتجاج کے تمام آپشنز اختیار کرینگے،راجہ ہارون رشید نے ان خیالات کا اظہار نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔


راجہ ہارون رشید کا مزید کہنا تھا کہپاک پی ڈبلیو ڈی گورنمنٹ آف پاکستان کے آئین 1973 کے بزنس رول کے مطابق واحد ادارہ ہے جو وفاقی گورنمنٹ کے تمام تعمیراتی کام سر انجام دے سکتا ہے اور یہ 1973 کے بزنس رول اور جنرل فنانشل رول (جی ایف آر) میں دیئے گئے اختیارات کے تحت اپنا کام کرتا ہے،سی پی ڈبلیو ڈی کوڈ میں اس کے تمام افسران کے اختیارات دیئے گئے ہیں ، گورنمنٹ آف پاکستان کے کنسٹرکشن کے شعبے میں کوئی بھی ادارہ اس سے این او سی لئے بغیر کام نہیں کر سکتا، پاکستان بننے کے بعد اس ادارے نے 2 دارلخلافے بنانے میں اہم کردار ادا کیا، پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد میں اس ادارے کو قائد اعظم کے مزار سمیت بہت سی اہم بلڈنگز ، بریج بنانے کا اعزاز حاصل ہے، اسلام آباد کی پہلی اینٹ لگانے کا اعزاز بھی اس ادارے کے پاس ہے۔ جب بھی گورنمنٹ کو کسی بھی بلڈنگ کی ایمر جنسی ضرورت پڑی ہے تو اس ادارے نے بخوبی اپنا کردار ادا کیا جس کی باقاعدہ مثال 1988ء میں سندھ ہاؤس کو پرائم منسٹر ہاؤس میں تبدیل کرناہے جس کی تزئین و آرائش 15 دن میں مکمل کی، اب وزیر اعظم نے حکم دیا ہے کہ پاک پی ڈبلیوڈی کو بند کر دیا جائے،وزیر اعظم کو یہ حکم دینے سے پہلے ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ یہ ادارہ کسی آئین کے تحت وجود میں آیا، اگر اسے بند کرنا ہے تو 1973ء کے آئین میںدو تہائی اکثریت سےترمیم کرنی پڑے گی اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کتنے ملازمین بشمول ورک چارج اس ادارے سے منسلک ہیں،کتنے کنٹریکٹرز بھی اس کے ساتھ منسلک ہیں، ان سب اور اُن کے بیوی بچوں کو بھوک اور افلاس کی طرف دھکیلنا کہاں کا انصاف ہے،پہلے یہ بات ثابت کی جائے کہ اگر کوئی آفیسر کرپٹ پریکٹس میں شامل ہے تو اُس کے خلاف کیا کاروائی کی،اگر نہیں کی گئی تو ادارے کو بند کرنے کے بجائے جو افسران کرپٹ پریکٹس میں ملوث ہیں اُن کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے ، پاک پی ڈبلیو ڈی کی پورے ملک میں کھربوں روپے کی زمین اور بلڈنگز موجودہیںجنہیں ہڑپ کرنے کیلئے یہ ڈرامہ رچایا جارہا ہے،جیسا کہ اس سے پہلے مری لارجزمیں کیا گیاوزیر اعظم نے تجاویزکیلئے جو کمیٹی بنائی ہے اُس میں لاء منسٹری کا کوئی آفیسر شامل نہیں جس سے لیگل ایڈوائز لی جاسکے،پہلے بھی ایک کوشش اس ادارے کو ختم کرنے کی کی گئی جس کی سمری اُس وقت کے صدر پاکستان نے مسترد کر دی تھی کہ بغیر آئین میںترمیم کئے اس ادارے کو ختم نہیں کیا جاسکتا، انہوں نے مزید کہا کہ اس ادارے کو بند کرنے کی بجائے فعال کیا جائے تا کہ لوگوں کی روزی بھی لگی رہے اور ان کی بد دعاؤں سے بھی بچا جا سکے اگر اسے زبردستی بند کرنے کی کوشش کی گئی تو تمام ملازمین اور کنسٹریکٹرزاس کیخلاف نہ صرف عدالتوں میں جائینگے بلکہ احتجاج کا ہر حربہ بھی آزمائیں گے۔