10 ویں اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول اختتام پذیرہوگیا،فلم کی نمائش ،رقص کا مظاہرہ

اسلام آباد۔دسواں اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول(آئی ایل ایف)ختم ہوگیا ہے۔ “الفاظ خیالات بدلتے ہیں” کے موضوع کے تحت منعقدہ فیسٹیول میں 100 سے زائد معروف ادبی اور فنون لطیفہ کی شخصیات نے بطور مقرر اور پینلسٹ شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔آئی ایل ایف میں 50معلوماتی سیشنز ہوئے، جس میں ادبی نشست، فلموں کی نمائش، رقص، مشاعرے، تھیٹر اور ایک یادگار صوفی نائٹ بھی شامل تھی۔ فیسٹیول کا انعقاد نٹ شیل پی آر کمپنی اور ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (او یو پی) پاکستان کے تعاون سے کیا ،

معروف مصنفہ اور نقاد منیزہ شمسی نے کہا کہ آئی ایل ایف نے ہمیں الفاظ کی طاقت دکھائی ہے، تقسیم کے درمیان مکالمے کو فروغ دیا ہے اور تبدیلی کی ترغیب دی ہے۔ شاعرہ اور مصنفہ نجیبہ عارف نے کہا کہ ادب ہمارے نقطہ نظر کو تشکیل دیتا ہے اور ہمیں دوسروں کی نظر سے دنیا دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔

محمد میکائیل سومرو نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم ایک ایسے اقدام کا حصہ ہیں جو فکری مکالمے کو فروغ دیتا ہے اور پاکستان کی شاندار ادبی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے۔
ارشد سعید حسین نے شرکاء اور معاونین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا جذبہ اور عزم اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ادب ترقی پسند اور منصفانہ معاشرے کی جانب تبدیلی کے سفر کو آگے بڑھاتا رہے۔ ہمیں آپ جیسے دوستوں کا ساتھ ملنے پر فخر ہے جو ہمارے مشن کو مزید مستحکم بنا رہے ہیں۔

فیسٹیول کے آخری روز کُل سترہ کتابوں میں سے آخری پانچ کتابوں کی رونمائی ہوئی۔ تیسرے دن کا آغاز امبر خیری کی کتاب “اکبر ان ونڈر لینڈ” سے ہوا، جس میں مصنفہ کی عامر غوری کے ساتھ گفتگو کی۔ خیری نے اپنی کتاب کے مرکزی کردار کی نوے کی دہائی میں درپیش سماجی اور سیاسی چیلنجز پر روشنی ڈالی، اور اس عہد کے مخصوص رویوں اور حالات کو بیان کیا۔

اردو فکشن کی کیٹیگری میں نجیبہ عارف کی کتاب “مظاہر و مباحیث” پیش کی گئی، جس میں عابد حسین سیال کے ساتھ گفتگو میں ثقافتی شناخت اور جدیدیت کے موضوعات کو زیربحث لایا گیا۔ اصغر ندیم سید کے ساتھ ایک نشست میں شاہد صدیقی کے تازہ ترین کام “ٹورنٹو، دبئی اور مانچسٹر” پر تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں تین شہروں کے سماجی و سیاسی منظرنامے کے ذریعے صدیقی کے بیانیہ سفر پر روشنی ڈالی گئی۔

فیسٹیول میں انگریزی شاعری Poetry in English from Pakistan کی تقریب رونمائی ہوئی، جسے ایلونا یوسف اور شفیق ناز نے مرتب کیا ہے۔ مختلف شاعروں کے پینل، جن میں نعیم پاشا، ریان خان، عالمگیر ہاشمی، حارث خلیق، وقاص نعیم، حسیب سلطان، وجاہت ملک، اطہر طاہر، مہوش امین، سعد علی، زین العابدین خان علی زئی اور صوفیہ بانو شامل تھے، نے اپنی شاعری پیش کی۔ اس مکالمے کی میزبانی عمار عزیز نے کی جس میں پاکستان کی انگریزی زبان میں شاعری کے منظر نامے کے متنوع پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔

پینل مباحثوں اور سیشنز کے دلچسپ سلسلے نے پاکستان کے معاشرتی، ثقافتی اور ادبی منظرنامے پر متنوع موضوعات پر بھرپور مکالمے کو جنم دیا۔ کیپٹل ٹاک کے دوسرے سیزن میں حامد میر اور مہر بخاری کے درمیان ایک فکر انگیز گفتگو ہوئی، جس میں صحافت اور عوامی مکالمے کے اہم مسائل پر بات کی گئی۔ سوشل میڈیا: اظہار رائے کی آزادی بمقابلہ سنسر شپ کے موضوع پر ایک مباحثے میں، پینلسٹ فرنود عالم، حسنین جمال، اور منیزے جہانگیر نے اظہار رائے کی آزادی اور ذمہ دارانہ مواد کے ضابطے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ اس سیشن کی میزبانی خیام مشیر نے کی۔ منیزے نے جعلی خبروں سے لڑنے کی مشکلات کا ذکر کیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ سنسر شپ کو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنا کردار تبدیل کرنا چاہیے نہ کہ لوگوں کی آواز کو دبانا چاہیے۔

ایک ادبی بحث پاکستانی اردو ادب کے خد و خال کے عنوان سے منعقد کی گئی، جس میں زہرہ نگہ، افتخار عارف، نجیبہ عارف اور عابد حسین سیال نے شرکت کی، جبکہ شکیل جاذب نے سیشن کی میزبانی کی۔ اس بحث کا مقصد پاکستان میں اردو ادب کی شناخت کے ارتقا کا جائزہ لینا تھا۔ ادب کے جغرافیے پر بات کرتے ہوئے زہرہ نگہ نے کہا کہ ادبی سانچے وقت کے ساتھ بدلتے ہیں تاکہ وہ اپنی اہمیت برقرار رکھ سکیں ، بالکل اسی طرح جیسے جسمانی ڈھانچے۔ ادب کبھی بھی سرحدوں کا پابند نہیں رہا، اور یہ اپنی تاریخی وراثت سے جڑا رہے گا جبکہ موجودہ دور کی حقیقتوں کی عکاسی بھی کرے گا۔افتخار عارف نے اس بات کو مزید واضح کیا کہ پاکستانی ادب قدر آور لوگوں سے مال مالا رہا ہے، جس میں ابن انشاء، یوسف یوسفی، رشید، پطرس، فیض اور بے شمار لوگ شامل ہیں۔ اور ان کے کام اردو زبان کی شاندار تاریخ اور ادبی عجائبات کے جواہرات ہیں۔