اسلام آباد( کرائم رپورٹر )تھانہ کہو کے علاقہ اٹھال میں مسلح ڈکیتی کی واردات پولیس اہلکاروں نے صحافی سے موبائل چھین لیا چار گھنٹے تک حبس بے جا میں رکھ کر تشد ایس ایچ او سمیت پولیس اہلکاروں کے خلاف ڈکیتی کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ تین جنوری 2025 کو سینئر صحافی عبدالجبار انصاری اپنے یوٹیوب چینل کے لیے ویڈیو بنانے کی غرض اٹھال چوک بارہ کہو میں مزدوروں سے بات چیت میں مصروف تھاکہ اس دوران گشت پر مامور پولیس گاڑی وہاں سے گزری جس نے وہاں رش دیکھا تو لوگوں سے کہا کہ راستہ چھوڑ دیں لوگ تھوڑے پیچھے ہٹ گئے اس دوران کسی مزدور نے کہا کہ یہ آدمی(عبدالجبار انصاری )ہماری ویڈیو بناتا ہے جس پر پولیس اہلکار نے سینئر صحافی عبدالجبار انصاری کو پکڑ کر گاڑی میں بٹھا کر مارنا شروع کر دیا اور مزدوروں کو بھی ساتھ گاڑی میں بیٹھ جانے کا کہا اور انہیں کہنے لگا کہ آپ اس کے خلاف گواہی دو کہ ہمارے گردے نکال کر بیچتا ہے۔پولیس اہلکار نے اٹھال چوک سے سینئر صحافی کو مارنا شروع کیا اور تھانے تک مارتا رہا پھر کمرے میں لے گیا اور وہاں پھر سے مارنا شروع کر دیا، سینئر صحافی نے پولیس اہلکار کو بتایا کہ وہ ایس ایچ او میاں عمران جاوید کا کزن ہے تو اس نے عمران جاوید سے فون پر بات کرائی اس نے بھی پہچاننے سے انکار کر دیا .
عبدالجبار انصاری سے کہا کہ وہ تو اس کو جانتا تک نہیں اور صحافی سے کہا کہ آپ چوکوں چوراہوں میں پولیس کو کیوں بتا رہے ہیں کہ آپ میرے کزن ہیں۔اس دوران ایک اور پولیس اہلکار نے سینئر صحافی سے فون کا کوڈ کھولنے کو کہا اور پھر گیلری میں میری پرنسل تصاویر دیکھنے لگا۔پھر عبدالجبار کو سب انسپکٹر حنیف کے حوالے کر دیا جس نے پوچھ گچھ کی اس کے باوجود تقریبا چار گھنٹے تک تھانہ میں بٹھائے رکھا ۔اس دوران سینئر صحافی نے نماز اشراق پڑھنے کا بولا تو حنیف سب انسپکٹر نے وہ بھی نہ پڑھنے دی۔جب حنیف کسی کام کے سلسلے میں کمرے سے باہر گیا تو وہاں موجود ایک اور پولیس آفیسر طاہر نے سینئر صحافی سے کہا کہ آپ ایس ایچ او سے رابطہ کر کے اپنی جان چھڑائیں۔پھر صحافی نے جب فون پر نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی جنرل سیکرٹری نئیر علی کو میسج کرنا چاہا تو طاہر نامی پولیس آفیسر نے میسج فورا ڈیلیٹ کرنے کا کہاجس پر صحافی نے موبائل فون سامنے والے میز پر رکھ دیا۔پھر جب پولیس آفیسر حنیف نے دیکھا کہ صحافی رہائی کی کوئی بات نہیں کر رہا تو خود ہی صحافی سے کہا کہ آپ بیان لکھ کر دیں کہ آپ آئندہ ایسا نہیں کریں گے تو صحافی نے جواب دیا کہ یہ تو ہمارا کام ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے۔تو اس نے کہا کہ جو واقعہ ہوا ہے وہ لکھ دیں جس پر سپر صحافی کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کا کارڈ، شناختی کارڈ اور موبائل فون واپس کردیا اور چلے جانے کا کہا جس پر صحافی عبدالجبار انصاری تھانے سے باہر آگیا۔راولپنڈی اور اسلام آباد کی صحافی تنظیموں نے اس واقعہ پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے ایس ایچ او سمیت پولیس اہلکاروں کے خلاف ڈکیتی کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔