فیشن ڈیزائننگ، بیوٹیشن، اور الیکٹریکل ورک جیسے شعبوں میں نوجوانوں کو تربیت فراہم کی گئی، جو مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ مدیحہ رفاق

راولپنڈی(نیوز رپورٹر)راولپنڈی میں سماجی ترقی کی تنظیم “شراکت” نے سول سوسائٹی ادارہ “حسنا ویلفیئر” کے اشتراک سے راولپنڈی پریس کلب میں “پاور ٹو دی یوتھ” منصوبے کے حوالے سے ایک اہم پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس تقریب کا مقصد نوجوانوں کی سماجی و اقتصادی شمولیت، مہارت کی تربیت اور بااختیار بنانے کے عمل کو اجاگر کرنا تھا۔

پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے مدیحہ رفاق، جو سراکت کی نمائندہ ہیں، نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت اب تک 2,500 سے زائد نوجوان مستفید ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 66 فیصد نوجوان یا تو برسرِ روزگار ہو چکے ہیں یا انہوں نے اپنے چھوٹے کاروبار کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فیشن ڈیزائننگ، بیوٹیشن، اور الیکٹریکل ورک جیسے شعبوں میں نوجوانوں کو تربیت فراہم کی گئی، جو مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔حسنا ویلفیئر کے جنرل سیکرٹری خرم شہزاد نے کہا کہ نوجوانوں کی ترقی کے لیے سرکاری، نجی اور سماجی اداروں کو باہمی اشتراک کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ مضبوط شراکت داری ہی معاشرتی استحکام اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل کی ضامن ہے۔پریس کانفرنس میں موجود اندلیب، جو کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشن سے وابستہ ہیں، نے اپنی ذاتی کہانی شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اس منصوبے کی بدولت انہیں بیوٹی سروسز کا کاروبار شروع کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی بدولت دیگر خواتین کو بھی روزگار کے مواقع میسر آئے ہیں، اور انہوں نے خواتین کے لیے مزید ووکیشنل ٹریننگ پروگرامز شروع کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔اسی طرح طیب عباس، جو “کمیونیٹی چیمپس” سے منسلک ہیں، نے اپنی کمیونٹی میں تعلیم، ماحولیاتی تحفظ، اور سماجی ترقی کے لیے کیے گئے اقدامات کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنے کے لیے مزید پلیٹ فارمز کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی کمیونٹی کی بہتری میں موثر کردار ادا کر سکیں۔

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ “پاور ٹو دی یوتھ” منصوبہ صرف مہارتوں کی تربیت تک محدود نہیں بلکہ نوجوانوں کو مالی معاونت، کاروباری رہنمائی، اور عملی مواقع بھی فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ خود کفیل بن سکیں۔منصوبے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ خاص طور پر محروم طبقات جیسے نوجوان خواتین، معذور افراد، خواجہ سرا کمیونٹی اور مذہبی اقلیتوں پر مرکوز ہے، تاکہ انہیں بھی مقامی ترقی اور حکمرانی میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔
تمام مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بااختیار نوجوان ہی ایک پائیدار، پرامن اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد بن سکتے ہیں.