بلوچستان میں انسانی حقوق کا بحران سنگین، ایچ آر سی پی نے سیاسی مکالمے، جبری گمشدگیوں کی تحقیقات اور انسداد دہشت گردی قانون کی واپسی کا مطالبہ کر دیا

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر)پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے بلوچستان میں درپیش انسانی حقوق کے بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بلوچستان میں اعتماد کی بحالی اور تنازع کے حل کے لیے سیاسی مکالمہ اور انسانی حقوق کی پاسداری کی ضرورت پر زور دیا ہے،مشن کی اس حوالے سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے میںجمہوری آزادیاں محدود اور صوبائی خودمختاری کمزور پڑ رہی ہے، قانون سے بالاتر رہنے کا رویہ بے لگام ہے،یہ تمام عوامل عوامی بیگانگی اور سیاسی عدم استحکام کو مزید بڑھا رہے ہیں.

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر پرسن اسد اقبال بٹ، شریک چیئرپرسن منیزے جہانگیر کا فرحت اللہ بابر، نسرین اظہر و دیگر کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں بلوچستان کےحوالے سے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کرتے ہوئےمزیدکہنا تھا کہ جبری گمشدگیاں بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے مطابق انسانیت کے خلاف جرم ہے، رپورٹ میں ان الزامات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے،مشن کا کہنا ہے کہ اگرچہ غیر بلوچ آباد کاروں سمیت عام شہریوں کو نشانہ بنانے والے عسکریت پسند حملے کسی طور بھی قابلِ جواز نہیں اور ان میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے، تاہم انسدادِ دہشت گردی (بلوچستان ترمیمی) ایکٹ 2025 کی منظوری انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہ قانون 90 دن تک حراست کی اجازت دیتا ہے.

مشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس قانون کو واپس لیا جائے اور اس کے بجائے یہ یقینی بنایا جائے کہ انسدادِ دہشت گردی سے متعلق تمام اقدامات پاکستان کی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے ہم آہنگ ہوں،رپورٹ کے مطابق انتخابی عمل میں دھاندلی اور قوم پرست جماعتوں کو سیاسی طور پر الگ تھلگ کرنے سے عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد بری طرح مجروح ہوا ہے،مشن نے تجویز دی ہے کہ ریاست شفافیت، انصاف اور جوابدہی کو یقینی بنائے، دھاندلی کے معتبر الزامات کی تحقیقات کرے اور انتظامی ڈھانچوں کو غیر سیاسی بنائے تاکہ سیاسی بیگانگی مزید نہ بڑھے،مشن نے ایک یکجا شہری پولیس فورس کے قیام کی سفارش کی ہے جس کے پاس مقامی کمیونٹی پر مبنی اور انسانی حقوق سے ہم آہنگ پولیسنگ کے لیے مناسب وسائل اور تربیت موجود ہوتاکہ نیم فوجی اور فوجی اداروں پر ضرورت سے زیادہ انحصار ختم کیا جا سکے.

حکومت 18ویں آئینی ترمیم کے تحت حاصل شدہ آئینی تحفظات بحال کرے اور قدرتی وسائل کے انتظام میں صوبائی خودمختاری کا احترام کرے،سینڈک جیسے متنازع منصوبوں اور بلوچستان مائنز اینڈ منرل ایکٹ میں حالیہ ترامیم پر نظرِ ثانی کی جائے تاکہ مقامی لوگوں کی مشاورت اور فوائد کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے،اگر ریاست نے شفاف، جامع اور انسانی حقوق پر مبنی سیاسی حل فوری طور پر نہ اپنایا تو بلوچستان میں سیاسی اور سکیورٹی حالات مزید بگڑتے جائیں گے.