گندھارا فیسٹیول کے موقع پر راولپنڈی آرٹس کونسل کی جانب سے پیش کیا گیا ڈراما ”اشوکا دی گریٹ” پر تبصرے سے پہلے کچھ اہم نکات کا تذکرہ بہت ضروری ہے، فیسٹیول سرکاری طور پر منایا گیا جسے کامیاب بنانے کے لیے راولپنڈی آرٹس کونسل کے افسران اور ملازمین نے پوری تن دہی سے کوشش کی، روایتی رقص، موسیقی کے پروگرام،گندھارا تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے ماربل سے بنے مہاتما بدھ کے مجسمے اور دیگر آرائشی اشیاء سمیت کشیدہ کاری اور کھانے پینے کے اسٹالز لگائے گئے۔ ہفتہ بھر جاری رہنے والے اس میلے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے گہری دلچسپی ظاہر کی اور اشوکا دی گریٹ اس فیسٹیول کا اختتامی آئٹم تھا، معروف مردوخواتین گلوکاروں، جھومریوں اور ڈھولچیوں نے میلے کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا، اب آتے ہیں ”اشوکا دی گریٹ”کی طرف، جسے صحافی اور شاعر سجاد لاکھا نے راولپنڈی آرٹس کونسل کے لیے تحریر کیا سلیمان سنی اس کے ہدایت کار تھے۔
ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر راحیل مصطفی تھے۔ محبوب الیاس، سپاہی مقبول کا کردار ادا کرنے والے غیاث مستانہ، گیسٹ ہاؤس فیم سعید انور، افضال لطیفی، اختر رشید، یار محمد خان، انجم عباسی، کاشف رضا، عفت چوہدری علی شان، صائمہ رحمان، ہنی بلوچ، عائشہ، عمرگل، اور دیگر فن کاروں نے ڈرامے میں مختلف کردار نبھائے۔ ڈرامے کا مرکزی خیال جنگ و جدل اور ملک گیری کے نتیجے میں بے پناہ تباہی و بربادی اور جانی نقصان کے باعث انسانوں کو پہنچنے والی تکالیف اور اس کے برعکس عدم تشدد اور خدمت خلق کے ذریعے دل جیتنے کے خوش کن احساس کو اُجاگر کرتا نظر آیا،کہانی میں بظاہر کوئی خامی محسوس نہیں ہوئی اور شائقین نے دل کھول کر فن کاروں کو داد و تحسین سے نوازا، محبوب الیاس جنہوں نے اب تک درجنوں اسٹیج اور ٹی وی ڈراموں میں کام کیا ہے وہ اشوکا دی گریٹ بنے اشوکا دی گریٹ کے کردار میں محبوب الیاس بلاشبہ فن کی بلندیوں پر نظر آئے، دل دہلا دینے والے جنگی میوزک کی گونج میں جب پردہ اٹھا اور مدھم لائٹس آن ہوئیں تو ایک ہیولا اسٹیج کی طرف پشت کیے کھڑا نظر آیا، روشنی اور میوزک تیز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ہیولا بھی آہستہ آہستہ رخ موڑ کر سامنے آتا گیا، یہ اشوکا تھا جس کے بائیں ہاتھ میں ایک کٹا ہوا سر اور دائیں ہاتھ میں خون آلود تلوار تھی، اس کے وحشیانہ قہقہے جنگی میوزک کی بلند آواز پر بھی غالب آ گئے اور پھر شائقین کی تالیوں سے ہال گونج اٹھا، ڈائریکٹر سلیمان سنی نے یوں تو ہر کردار کے کاسٹیوم پر بھرپور توجہ دی تاہم ہیرو کو حقیقی جنگجو دکھانے میں کمال کر دیا
میک اپ بھی شان دار، دیکھنے والے مبہوت ہو گئے۔ اشوکا نے جب ویدیا بنی کالنگا کی مہارانی کور وکی اور وید بنے حاجی اعظم کو باری باری پوری بے رحمی کے ساتھ بالوں سے پکڑا تو شائقین سچ مچ پریشان دکھائی دیے، ہال میں ایک ساتھ سینکڑوں آوازیں گونج اٹھیں، ہائے کتنا ظالم ہے، یقیناً محبوب الیاس ہی اشوکا دی گریٹ کے کردار سے انصاف کر سکتے تھے اور انہوں نے کر دکھایا، فیسٹیول اختتام پذیر ہو چکا لیکن محبوب الیاس اشوکا کے کردار میں ابھی تک زیر بحث ہے اور بڑی عمدگی سے اس مشکل کردار کو مجسم کر دکھایا، فٹ ورک، ڈائیلاگ ڈیلیوری اور تاثرات پر اداکاری سے زیادہ حقیقت کا گمان ہوتا رہا، شائقین کی تالیوں سے ہال گونجتا رہا،غیاث مستانہ منجھے ہوئے اداکار ہیں، انہوں نے اشوکا کے باپ مہاراج بندوسار کا کردار ادا کیا اور اسے خوب نبھایا، مکالمے اور چہرے کے تاثرات بہت ہم آہنگ تھے اور مرنے کا انداز ایسا تھا کہ دیکھنے والے دم بخود رہ گئے،فقیر محمد کالنگا کے راجہ بنے اور اس کردار میں ڈھل کر فن کے جوہر دکھائے صائمہ رحمان کا یہ پہلا اسٹیج ڈراما تھا اور اس میں انہوں نے اشوکا کی بیوی بن کر ایسی پختہ اداکاری دکھائی کہ شائقین بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو گئے، اختر رشید اور افضال لطیفی اسٹیج کی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں، بھکشو کا کردار گویا اختر رشید ہی کے لیے تخلیق ہوا تھا، بہت خوب صورتی سے نبھایا جب کہ ڈرامے کے آخری سین میں افضال لطیفی بدھ راہب بن کر جنگ کے میدان میں آئے اور زبردست جذباتی اداکاری کے ذریعہ پورا منظر نامہ بدل دیا۔
اسی سین میں عفت چوہدری کی اداکاری کا جادو سر چڑھ کر بولتا دکھائی دیا، وہ بیٹے کی لاش کے پاس ماتم کر رہی ہوتی ہے، اشوکا اسے دلاسہ دیتا ہے اور پانی کا پیالا پیش کرتا ہے، یہ علم ہوتے ہی وہ پیالا پھینک دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اشوکا تم ظالم ہو،میں قاتل کے ہاتھ سے پانی پینے کے بجائے مر جانا پسند کروں گی، یہی وہ مرحلہ ہے جہاں اشوکا کی کایا پلٹ ہوتی ہے، وہ بدھ راہب سے روشنی کی بھیک مانگتا ہے اور بدھ مت اختیار کر کے عدم تشدد اور مخلوق کی خدمت کا عہد کرتا ہے،ڈرامے کے دیگر کرداروں میں علی شان نے اشوکا کے بھائی شہزادہ سوشین، ہنی بلوچ نے کالنگا کی مہارانی کور وکی، حاجی محمد اعظم نے وید، لالا یار محمدنے اشوکا کا سفیر بن کر بھرپور داد سمیٹی،انجم عباسی جوالا کے کردار میں بہت زبردست دکھائی دیے،سویرا شہزادی سوشین کی والدہ کے روپ میں اپنے مختصر کردار کے باوجود بہت نمایاں رہی،ساؤنڈ پر ڈائریکٹر کی گرفت نے شائقین کو شروع سے آخر تک مسحور کیے رکھا یہ تو تھا سب اچھا، اب کچھ ذکر ہو جائے فنی باریکیوں اور چھوٹی چھوٹی کمزوریوں کا، مثال کے طور پر کچھ فن کاروں نے مکالموں کی ادائیگی میں غلطیاں کیں۔
ایک آدھ جگہ اسپاٹ لائٹ منظر کا درست احاطہ نہ کر سکی اور کئی اداکار مائیکروفونز سے زیادہ فاصلے پر رہ کر ڈائیلاگ بولتے رہے جس کے نتیجے میں آواز تمام شائقین تک نہ پہنچ پائی،کالنگا پر حملے والی آخری جنگ سے پہلے والے سین میں اسٹیج پر رکھا گیا تخت ہٹایا نہیں گیا اور جنگ کے دوران وہ میدان جنگ میں موجود رہا، فیملی ڈرامے نے شائقین کے دل جیت لیے،رش کا یہ عالم تھا کہ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی، بڑی تعداد میں لوگوں نے سائیڈوں پر کھڑے رہ کر پورا ڈراما دیکھا، باہر نصب بڑی اسکرین پر ڈراما دیکھا گیا۔
راولپنڈی آرٹس کونسل کی پیش کش، سلیمان سنی کی ہدایات، فن کاروں کی محنت اور کوئی گلیمر نہ ہونے کے باوجود شائقین کی دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ صاف ستھرے فیملی ڈرامے دیکھنے کے خواہش مند ہیں، ڈراما ختم ہونے پر بھی شائقین کی بڑی تعداد ہال میں موجود رہی، فن کاروں کا تعارف پورے انہماک سے سنا گیا، عاصمہ بٹ صاحبہ نے ڈائریکٹر سلیمان سنی کو بیس ہزار روپے کیش ایوارڈ پیش کیا جب کہ ایک اور مہمان شخصیت نے بھی پوری ٹیم کو نقد انعام سے نوازا، سنگاپور سے آئے مہمان پروفیسر نے یہ ڈراما سنگاپور میں دکھانے کی خواہش ظاہر کی، یہ ڈراما نہ صرف جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کے احساس کو اُجاگر کرے گا بلکہ یہ فیملی ڈراموں کے نئے سلسلے کا نکتہء آغاز بھی ثابت ہو گا۔ان شاء اللہ