بھارت کی سپریم کورٹ کے بعد ہائی کورٹ نے بھی اسلام مخالف فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کی ریلیز روکنے سے متعلق جمعیت علما ہند کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اسے مسلم مخالف مووی قرار دینے سے بھی انکار کردیا۔
’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق جمعیت علما ہند نے سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست مسترد کیے جانے کے بعد کیرالہ ہائی کورٹ سے فلم کی نمائش روکنے کے لیے رجوع کیا تھا۔
کیرالہ ہائی کورٹ نے 4 مئی کو درخواست پر آخری سماعت کرتے ہوئے فلم کی نمائش روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسے کسی بھی مذہب کے خلاف قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے سوال کیا کہ فلم میں اسلام کے خلاف کون سی باتیں شامل ہیں؟
رپورٹ کے مطابق کیرالہ ہائی کورٹ کی بینج نے فلم کا ٹریلر بھی دیکھا، جس کے بعد عدالت نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کسی بھی مذہب کے خلاف نہیں بنائی گئی، اس میں کوئی بھی اسلام مخالف مواد شامل نہیں، البتہ فلم کی کہانی شدت پسند تنطیم داعش کے خلاف لگتی ہے۔
عدالت نے فلم کی ریلیز روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پروڈیوسرز اور ہدایت کار بڑی محنت، وقت اور پیسہ لگا کر فلمیں بناتے ہیں، ان کی نمائش نہیں روکی جا سکتی، البتہ مرکزی فلم سینسر بورڈ فلم کے مواد کا جائزہ لے کر اس پر پابندی یا اس کی نمائش روکنے سے متعلق فیصلہ کر سکتا ہے۔
اسی حوالے سے ’انڈیا ٹوڈے‘ نے بتایا کہ کیرالہ ہائی کورٹ کی جانب سے فلم کی نمائش کو روکنے کی استدعا مسترد کیے جانے کے بعد اسے 5 مئی کو بھارت بھر میں ریلیز کردیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوران سماعت عدالت نے فلم پروڈیوسرز کو فلم کا متنازع ٹیزر سوشل میڈیا سے ہٹانے کی ہدایت کی اور کہا کہ 32 ہزار لڑکیوں کا مسلمان ہوکر داعش میں داخل ہونے کا دعویٰ ہٹایا جائے۔
فلم کے پروڈیوسرز نے عدالت کو بتایا کہ وہ عدالتی احکامات پر 32 ہزار ہندو لڑکیوں کے مسلمان ہونے کا دعویٰ سوشل میڈیا سے ہٹا رہے ہیں اور وہ ٹیزر کو بھی ڈیلیٹ کردیں گے۔
فلم پروڈیوسرز کی ضمانت کے بعد عدالت نے فلم کی نمائش روکنے کی استدعا مسترد کردی، جس کے بعد فلم کو ریلیز کردیا گیا، تاہم بھارت کی متعدد ریاستوں کے کئی اضلاع میں اس کی نمائش روک دی گئی۔
’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق فلم کی متنازع کہانی کی وجہ سے کیرالہ سمیت دیگر ریاستوں کے متعدد اضلاع میں سینما گھروں نے فلم کی نمائش منسوخ کردی۔
دوسری جانب فلم کی ریلیز کے موقع پر تامل ناڈو، کرناٹکا اور اتر پردیش سمیت متعدد ریاستوں میں سیکیورٹی کو بھی ہائی الرٹ کردیا گیا۔
فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارتی ریاست کیرالہ سے 32 ہزار نوجوان اور کم عمر لڑکیاں غائب ہوکر داعش میں شمولیت اختیار کر چکی ہیں جو بھارت، شام اور لیبیا سمیت دیگر ممالک میں دہشت گردی پھیلا رہی ہیں۔
فلم کے جاری کیے گئے ٹریلر سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ فلم کو خاص پروپیگنڈا کے تحت بنا کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ مقامی علما ہی خواتین کو دین اسلام کی جانب راغب کرکے انہیں مسلمان بنا رہے ہیں۔
فلم کے ٹریلر جاری کیے جانے کے بعد متعدد بھارتی سیاست دانوں اور سماجی رہنماؤں نے بھی اس کی کہانی کو من گھڑت اور بھارت کی بدنامی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔