نور مقدم قتل کیس میں گواہان پر جرح جاری ،مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کو طبی معائنہ میں فٹ قرار دینے کی رپورٹ بھی پیش

اسلام آباد(سی این پی)ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطاء ربانی کی عدالت میں زیرسماعت نور مقدم قتل کیس میں گواہان پر جرح جاری رہی،مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کو طبی معائنہ میں فٹ قرار دینے کی رپورٹ بھی پیش کردی گئی۔گذشتہ روز سماعت کے دوران ملزم ذاکر جعفر، مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کوعدالت میں پیش کیاگیا،مدعی مقدمہ شوکت مقدم اپنے وکلاء بابر حیات،نثار اصغر کے ہمراہ اور تفتیشی آفیسر عبدالستار،پراسیکیوٹر رانا حسن عباس اور ملزم جان محمد،افتخار اور جمیل کے وکیل سجاد احمد بھٹی عدالت میں پیش ہوئے، سجاس احمد بھٹی ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں ہائیکورٹ سے سیدھا ادھر آرہا ہوں، بشارت اللہ کو چیک کر رہے ہیں کب پہنچیں گے، دوران سماعت مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کو سٹریچر پر عدالت پیش کر دیا گیا،ملزمان کے وکلاء سجاد احمد بھٹی نے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کو واپس بخشی خانہ بھیجنے کی استدعاکرتے ہوئے کہاکہ ملزم کی طبعیت بہتر نہیں ہے اسے واپس بخشی خانہ بھیج دیں،جج نے کہاکہ میں تو انسانی ہمدردی کے ناطے ملزم کو نہیں بلانا چاہتا تھا، وکلاء نے ملزم کی کمرہ عدالت موجودگی کی درخواست کی تھی اس لیے اسے بلایا ہے،عدالت نے وکیل بشارت اللہ کے آنے تک سماعت میں وقفہ کر دیا، بعدازاں دوبارہ سماعت شروع ہونے پرملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ کی تفتیشی آفیسر عبدالستار پر جرح شروع کی جس کے دوران تفتیشی افسر نے کہاکہ سکندر، اے ایس آئی زبیر مظہر، کانسٹیبل عابد رفیق، کانسٹیبل اعتزاز، لیڈی کانسٹیبل اقصیٰ میرے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچے، پولیس ڈائری کے مطابق این ایف ایس ائے ٹیم کو بلانے کا زکر نہیں،27 جولائی کو سات افراد کی سی ڈی آر موصول ہوئی تھی،27 جولائی سے قبل ظاہرجعفر، زاکرجعفر، جمیل اور عصمت آدم جی بھی گرفتار تھے، موبائل کمپنی کے کسی حکام کو تفتیش میں شامل نہیں کیاگیاتھا،مقتولہ نورمقدم کے وٹس ایپ کا ڈیٹا پولیس نے نہیں لیا،مدعی مقدمہ نے پولیس کو کبھی بیان نہیں دیا کہ انہیں مقتولہ نورمقدم کی کال وٹس ایپ پر موصول ہوئی،ملزم زاکرجعفر کے سی ڈی آر اور بیان میں جاری پیجیز کی تعداد مختلف ہے،مقتولہ نورمقدم کا صبح دس بج کر چھیالیس منٹ تک کا ڈیٹا موجود ہے، 10بجکر46منٹ کے بعد مقتولہ کا موبائل فون بند ہوگیاتھا لیکن یہ بات درج نہیں کی گئی تھی، مقتولہ نورمقدم کے نمبر سے کئی مختلف نمبروں سے کال موصول بھی ہوئیں اور کی بھی گئیں،ایک مخصوص نمبر سے مقتولہ نورمقدم کا 19 اور 20 جولائی کو مسلسل رابطہ رہا لیکن اس بندے کو شامل تفتیش نہیں کیاگیا،میں نے نہیں لکھا کہ مقتولہ نورمقدم کا فون ان لاک نہیں ہورہا جس کے باعث ٹرانسکرپٹ لکھنا ممکن نہیں، سی ڈی آر کے مطابق مقتولہ کا وقوعہ کے وقت اپنی والدہ کے ساتھ رابطہ تھی،میں نے مقتولہ کی والدہ کو شامل تفتیش نہیں کیا،سی ڈی ار کے ڈیٹا پر کسی کا نام درج نہیں اور نہ سی ڈی آر دینے والے کا نام اور دستخط ہیں،میں نے خود بھی سی ڈی ار کے ڈیٹا پر دستخط نہیں کیے،سی ڈی آر کے مطابق مقتولہ کا وقوعہ کے وقت اپنی والدہ کے ساتھ رابطہ تھی،میں نے مقتولہ کی والدہ کو شامل تفتیش نہیں کیا،20 جولائی کو دوپہر 1 بج کر 53 منٹ پر مدعی مقدمہ اور زاکرجعفر کے درمیان 668 سیکنڈز کی کال ہوئی،مدعی مقدمہ نے کبھی مجھے نہیں بتایا کہ ان کی ملزم ذاکر جعفر سے کال پر بات ہوئی،21 جولائی کو 9بج کر 18 منٹ پر ملزم ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی صبح کی فلائٹ سے کراچی سے اسلام آباد پہنچے،میں نے کسی موبائل کمپنی کو سمز کی ملکیت کا ڈیٹا موصول کرنے کےلئے کوئی خط نہیں لکھا، قتل کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں ہے،دونوں نقشوں میں مقتولہ نورمقدم کے چھلانگ لگانے اور بھاگنے کا زکر نہیں کیاگیا،نقشوں کے آٹھ نوٹس میں کہیں بھی کسی کیمرے کا زکر نہیں کیاگیا،جائے وقوعہ پر مجھے ایف آئی آر موصول ہوئی تھی جس کو میں نے پڑھا ،ایف آئی آر میں مرکزی ملزم ظاہرجعفر کی جائے وقوعہ پر موجودگی کا زکر نہیں، ایف آئی آر میں جائے وقوعہ پر لاش کی موجودگی کا ذکر بھی نہیں، جائے وقوعہ کے سامنے اور عقب میں کوٹھیاں ہیں لیکن ان کی سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں لی گئی،مرکزی ملزم ظاہرجعفر کی 19 جولائی کو اسلام آباد سے دوحہ کی فلائٹ شیڈول تھی،مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے موبائل فون کے اسکرین کے ٹوٹے ہونے کا زکر نہیں،26 جولائی کے بیان میں مرکزی ملزم ظاہرجعفر نے اپنے والدین کا نام نہیں دیا، مدعی نے بیان ریکارڈ کروایا کہ ان کی جعفر فیملی سے واقفیت ہے لیکن واقفیت کی نوعیت کا نہیں پوچھا، پولیس نے مکمل تفتیش گھر کے صرف ایک فلور پر کی،سی سی ٹی وی فوٹیج میں چند لوگوں کا گھر کے سامنے آنا جانالگارہا،تفتیشی افسر پر ملزم زاکر جعفرکے وکیل نے جرح مکمل کر لی، دوران سماعت اڈیالہ جیل حکام کی طرف سے ملزم ظاہر جعفر کی درخواست پر میڈیکل کروانے کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی جس میں جیل ہسپتال کے ڈاکٹرز نے ملزم ظاہر ذاکر جعفر کو مکمل طور پر فٹ قرار دیدیا اور کہاکہ ملزم کا بہت دفعہ میڈیکل کیا گیا، ملزم کا ماہر نفسیات نے بھی مکمل معائنہ قرار دیکر اسے فٹ قرار دیدیا، عدالت نے کیس کی سماعت 24 جنوری تک ملتوی کر دی۔