نور مقدم قتل کیس، پولیس کی وضاحت سرکاری طور پر ہوئی ہے توبہت بری بات ہے،عدالت

اسلام آباد(سی این پی )ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطاء ربانی کی عدالت میں زیرسماعت نورمقدم قتل کیس میں تفتیشی افسر پر وکلاء صفائی کی جرح جاری، پہلی مرتبہ وفاقی پولیس کے ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے بھی سماعت سنی۔گذشتہ روز سماعت کے دوران ایس ایس پی انوسٹی گیشن عطاء الرحمن بھی سماعت سننے کیلئے عدالت آئے جبکہ وکلاء صفائی اور پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس ،مدعی مقدمہ شوکت مقدم اور دیگرعدالت پیش ہوئے، عدالت نے ملزمان کو بخشی خانہ سے بلوایا اور ان کی حاضری لگائی، اسد جمال ایڈووکیٹ نے کہاکہ جو وضاحت پولیس کی جانب سے جاری ہوئی کیا وہ ریکارڈ کا حصہ بنا دیں،عدالت نے استفسار کیاکہ کون سی وضاحت کب جاری ہوئی،پبلک پراسیکیوٹر نے کہاکہ میڈیا کی باتیں میڈیا تک ہی رہنے دیں،وکیل صفائی نے کہاکہ آئی جی اسلام آبادنء جسٹس سسٹم میں مداخلت کی ہے، چاہے آئی جی ہے یا چیف سیکرٹری ہے وہ آپ کے ماتحت ہیں،جج نے کہاکہ مجھے بتائیں پولیس کی جانب سے اگر کوئی وضاحت سرکاری طور پر ہوئی ہے تو بہت برا ہوا، میں ایکشن لوں گا،پبلک پراسیکیوٹر نے کہاکہ آئی جی صاحب سے یہ وضاحت نہیں آئی پولیس نے دی ہے، عدالت کے جج نے کہاکہ میں اپنے مزاج کا بندہ ہوں میں اس طرح نہیں کرتا،میں دیکھ لیتا ہوں آئی جی نے اپنی وضاحت میں کیا کہا،جس کے بعد مقدمہ کے تفتیشی آفیسر انسپکٹر عبدالستار پر وکیل اکرم قریشی کی جرح شروع کی،تفتیشی افسر عبدالستار نے کہاکہ کرائم سین انچارج محمد عمران نے لیپ ٹاپ قبضے میں نہیں لیا، لیپ ٹاپ میں نے قبضے میں لیاتھا،رپورٹ مرگ کی تحریر اور مختلف حالات کی تحریر میری ہے لیکن لکھائی مختلف ہے،رپورٹ مرگ میں لکھاہےکہ محمد زبیر، لیڈی کانسٹیبل اقصیٰ رانی، ایس ایچ او وویمن اور دیگر ملازمین جائے وقوعہ پر پہنچے،رپورٹ مرگ میں لکھاہواہےکہ جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو مدعی شوکت مقدم نے بیان دیا،میں پہلے جائے وقوعہ پر پہنچا، کرسئم سین انچارج محمد عمران 9 بجے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچا،پولیس کو قتل انسانی کی انفارمیشن موصول ہوئی اس وقت تھانہ آبپارہ تھا وہاں سے تھانہ کوہسار گیا،نہیں معلوم اس وقت رضا محمد بطور ڈیوٹی افسر تھانہ کوہسار میں ڈیوٹی سر انجام دےرہاتھایا نہیں،نائب محرر نے مجھے بتایا کہ اس وقت قتل کا پرچہ درج نہیں ہوا،میں نے تھانے میں بطور مدعی ایف آئی آر درج نہیں کی،جب میں جائے وقوعہ پر پہنچا تو ائے ایس آئی بشارت رحمان میرے بعد پہنچا،9 بجے مجھے قتل کی اطلاع نہیں ملی تھی تو میں ائے ایس آئی بشارت رحمان کو کیسے 9 بجے اطلاع دے سکتا تھا،میں 9:30 بجے جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھا، میرے بعد ائے ایس آئی بشارت رحمان جائے وقوعہ پر پہنچا،اس وقت نائب محرر نے مجھے بتایا کہ ابھی ایف آئی آر نہیں ہوئی، ایس او پیز کے مطابق ہم ڈائریکٹ ایف آئی آر نہیں دیتے، بشارت اے ایس ائی جب وہ وہاں پہنچا تو میں وہاں موجود تھا لیکن ساڈھے نو کے بعد کا وقت تھا،میں پہنچا تو زبیر مظہر اور ہمارے ملازمین نے ظاہر جعفر کو پکڑا ہوا تھا،ڈی وی آر میں نظر نہیں آیا کہ تھراپی ورک کے ملازمین باندھ کر ظاہر جعفر کو نیچے لائے،ڈی وی آر میں نظر نہیں آیا کہ تھراپی ورک ملازمین ظاہر جعفر کو پولیس کی گاڑی میں ڈال رہے ہیں،جن دنوں تفتیش ہورہی تھی تو فراست فہیم اور محمد ریاض بطور محرر تھانے میں تعینات تھے،جب جائے وقوعہ پر پہنچا تو پولیس ساتھیوں نے مرکزی ملزم ظاہرجعفر کو پکڑا ہوا تھا لیکن یہ بات ڈی وی ار میں نظر نہیں آئی،ڈی وی آر کے مطابق تھیرپی ورکس والوں نے مرکزی ملزم ظاہرجعفر کو زخمی حالت میں گاڑی میں نہیں رکھا، اکرم قریشی ایڈووکیٹ نے کہاکہ پورے کیس ڈائری میں گواہ مدثر علیم کا بیان کیالکھا؟ اگر لکھا ہے تو دکھا دو،تفتیشی افسر نے کہاکہ گواہ مدثر علیم کا بیان پورے کیس میں نہیں لکھا،مدثر علیم کا بیان محمد مدثر کے نام سے لکھا ہےلیکن یہ غلطی پولیس ڈائری میں نہیں لکھی،21 جولائی کو فراست فہیم چھٹی پر تھا تین پارسل اس کے حوالے نہیں کیے بلکہ محمد ریاض کے حوالے کئے تھے،محمد ریاض کے پارسل وصولی کی تفصیلی نہیں لکھی نہ کسی اور جگہ اس کی وضاحت دی،اس موقع پر پبلک پراسیکیوٹر کے بولنے پر ملزم کے وکیل اکرم قریشی نے روک دیا اور کہاکہ تفتیشی افسر کو بولنے دیں آپ چپ رہیں،پبلک پراسیکیوٹرنے کہاکہ جو لکھا ہوا تھا میں نے وہی پڑھا ہے، وکیل نے پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس سے کہاکہ آپ کو زیادہ شوق ہے تو آپ آگے آجائیں،وکیل اکرم قریشی نے کہاکہ جب تھراپی ورکس کو آپ نے گرفتار کیا تو ان کا موقف تھا کہ ہم طبی امداد دینے جائے وقوعہ پر گئےتھے؟، تفتیشی افسر نے کہاکہ نہیں! تھراپی ورکس کا کہنا تھا کہ وہ طاہر ظہور کے کہنے پر جائے وقوعہ پر پہنچے تھے،21 جولائی کو ائے ایس آئی زبیر مظہر کو تھراپی ورکس کے ملازم زخمی امجد محمود کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے ہسپتال بھیجاتھا،ہمیں معلوم نہیں تھا کہ امجد محمود اس واقعے میں زخمی ہوا، 15 نے اطلاع دی تھی کہ ایف سیون سے کوئی زخمی پمز ہسپتال آیا ہوا ہے،جب امجد محمود زخمی تھا تو میں نے اس کا میڈیکل لیگل سرٹیفکیٹ نہیں لیا،میں اور طبی معائنہ کرنے والا ڈاکٹر اکٹھے میجسٹریٹ کے آگے پیش نہیں ہوئے،وکیل نے کہاکہ میڈیکل آفیسر نے پہلے آپ کو کہا کہ میڈیکل لیگل سرٹیفکیٹ پہلے موصول کریں اور پھر اس کی کاپی امجد کو دیں؟، تفتیشی نے کہاکہ نہ میں ڈاکٹر کے پاس گیا اور نہ میری ڈاکٹر سے بات ہوئی،میں نے آج تک تھیرپی ورکس کے ملازم امجد محمود کا میڈیکل لیگل سرٹیفکیٹ نہیں لیا، تھراپی ورکس کے ملازم امجد محمود کے کپڑے ہم نے اپنی تحویل میں نہیں لیے،کیس ڈائری میں نہیں لکھا کہ امجد محمود بنا بتائے ہسپتال سے چلا گیا تو اس لیے کپڑے اپنی تحویل میں نہیں لیے،جائے وقوعہ سے تمام خون کے سیمپل لیے تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ امجد محمود کا خون بھی جائے وقوعہ پر پڑا ہواتھا،تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کے وکیل کی جرح ختم ہوگئی، جس کے بعد ملزمان افتخار،محمد جان اور جمیل کے وکیل سجاد احمد بھٹی اورشہزاد قریشی نے تفتیشی افسر عبدالستار پر جرح شروع کی جس کے دوران تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ نقشے کے خاکے میں مین گیٹ کے ہونے کا ذکر نہیں کیا،ملزمان افتخار،محمد جان اور جمیل کی موجودگی بھی خاکے میں ظاہر نہیں کی گئی،سی سی ٹی وی کیمرے کا فرد نہیں بنایا ڈی وی آر کا فرد بنایا ہے،20 اور 21 جولائی کی درمیانی رات کو میں اور شوکت مقدم نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی،23 جولائی تک مدعی شوکت مقدم نے ملزمان افتخار، جان محمد اور جمیل کے خلاف درخواست نہیں دی، 24 جولائی کو دی،18 جولائی سے 20 جولائی صبح دس بجے تک مقتولہ نور مقدم کا موبائل کام کر رہا تھا،ریکارڈ کے مطابق نور مقدم کو فون ، میسجز آتے بھی رہے ہیں اور وہ کرتی بھی رہی ہے،نور مقدم نے 18 جولائی سے 20 جولائی تک 15 یا تھانے میں خطرے کی کوئی اطلاع نہیں دی،سی ڈی آر کے مطابق نور مقدم نے کسی چاہنے والے کو کسی خطرے سے متعلق پیغام نہیں دیا، ملزمان افتخار،محمد جان اور جمیل کا چہرے کی شناخت کا موازنہ نہیں کرایا، کیس کا کوئی چشم دید گواہ بھی سامنے نہیں آیا، تھراپی ورکس ملازمین کے وکیل شہزاد قریشی نے استدعا کی کہ میں فوٹیج چلواکر تھراپی ورکس کے ملازمین کے آنے کا وقت دیکھنا چاہتا ہوں،جس پر عدالت نے کمرہ عدالت سے صحافیوں اور غیر متعلقہ افراد کو باہر جانے کہ ہدایت کی اور کمرہ عدالت خالی ہوجانے پر ویڈیو چلائی گئی، ان کیمرہ سماعت مکمل ہونے پر عدالت نے مزید سماعت2 فروری تک کیلئے ملتوی کردی، آئندہ سماعت پر تھراپی ورکس کے وکیل شہزاد قریشی اور ملزمہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال جرح کریں گے۔