پیکا ترمیمی آرڈیننس، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حتمی دلائل طلب کرلئے

اسلام آباد(سی این پی)اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور پی بی اے سمیت دیگر صحافتی تنظیموں کی پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں میں حتمی دلائل طلب کرلیے۔گذشتہ روز سماعت کے دوران پی ایف یو جے کے ایڈووکیٹ عادل عزیز قاضی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود، ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ اور دیگر عدالت پیش ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ آرڈیننس جاری کرنے سے متعلق مختلف Aspect دیکھنے ہیں،آرٹیکل 89 کے تحت آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار کس حد تک ہے؟، مصطفی ایمپکس کیس میں بھی کہا گیا legislature کا یہ اختیار ہے،عدالت نے استفسار کیاکہ کس تاریخ کو یہ آرڈینس جاری ہوا ؟،جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایاکہ یہ آرڈینس 18 کو جاری ہوا آفیشل گزٹ میں 19 فروری کو آیا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تو ایگزیکٹو کا اختیار نہیں ہے کہ ان کو پارلیمنٹ کے سامنے نہ رکھے،اس طرح تو پارلیمنٹ کے سامنے نا رکھنا ایگزیکٹو کی بدنیتی ثابت کرتا ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی ایک ٹائم لائن ہے اس دوران ہی رکھا جانا ہے،جب تک رولز موجود ہیں تو ایگزیکٹو نے انہیں کو اختیار کرنا ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مختلف عدالتی فیصلوں کا بھی حوالہ دیا،چیف جسٹس نے کہاکہ آرڈیننس ایگزیکٹو نے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ جہاں اکثریت ہو صرف وہاں پیش کردیں،آپ نے بتانا ہے کہ ایگزیکٹیو اگر اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کرتا ہے تو اس کے بھی اثرات ہیں، آپ نے بتانا ہے کہ اس آرڈیننس کو کب اور کس ہاؤس کے سامنے پیش کیا گیا ؟،عدالت نے یہ بھی کہاکہ سینٹ چیئرمین کی رولنگ ہے جب بھی آرڈینس جاری ہو گا پارلیمنٹ اور سینٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا،اگر ایگزیکٹو جان بوجھ آرڈیننس دونوں ہاؤسز کے سامنے نہیں رکھتا تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟، ایگزیکٹو کے پاس کوئی اتھارٹی نہیں کہ آئین کی خلاف ورزی کرے،سیکشن 20 میں گرفتاری کو کیسے Justify کرتے ہیں ؟،کیوں عدالت سیکشن 20 کو کالعدم قرار نہ دے ؟ اس پر بتائیں،اس عدالت کے سامنے ایک کیس ہے جہاں صحافی نے ایک کتاب سے کا حوالہ دیا،ایک کتاب سے تاریخی حوالہ صحافی نے دیا تو اس پر سیکشن 20 کیسے لگے گا؟،اس سیکشن کو کالعدم قرار دینے کے لیے ایف آئی اے نے خود ہی ایک کیس بنادیا ، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیامحسن بیگ کو بھی تو اسی طرح ہی گرفتار کرنا چاہتے تھے ؟آپ سے اتنا کہا ہے کہ نہ شکایت کنندہ کو شرمندہ کریں نہ خود شرمندہ ہوں، عدالت نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیاکہ سیکشن 21 ڈی کیسے Attract کرتا ہے،شکایت کنندہ (مراد سعید) اسلام آباد میں تھا محسن بیگ کے خلاف شکایت لاہور کیسے کی ؟، کس طرح اتنی جلدی شکایت بھیجی؟ کیا ٹی سی ایس کے ذریعے گئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹی سی ایس کی رسید پیش کریں جس کے ذریعے شکایت پہنچی،اصل ایف آئی اے عوام کی خدمت لیے ہے جو پبلک آفس ہولڈرز کے کام جاری رکھے ہوئے ہے،اختلاف رائے، تنقیدی آوازیں رکھنے والے اور صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے،ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کا ٹول نہیں ہے،ہماری سوسائٹی کی ویلیوز خراب ہو گئی ہیں تو کیا اب سوسائٹی ساری کو اندر کردیں،کوئی سچی گواہی نہیں دیتا تو کیا پراسیکوٹر کو اجازت دے دی جائے وہ خود ہی کر لے،چیف جسٹس نے کہاکہ ایف آئی اے کا یہ کام نہیں کہ وہ یہ اختیار ایسے استعمال کرے کہ کوئی بولے ہی نہ،کل کو کوئی پی ٹی ایس ایل پر کوئی تنقید کرے تو ترمیمی آرڈیننس کے تحت شکایت فائل کر سکتے ہیں؟،دنیا میں کوئی ایک مثال دے دیں کہ جہاں کسی کمپنی یا ادارے کی Reputation کو تحفظ دیا جاتا ہو،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ موجودہ حالات اور تناظر نے پیکا آرڈیننس کو پس پشت ڈال دیا ہے،ہو سکتا ہے کہ حکومت یہ ترمیمی آرڈیننس واپس لے لے،عدالت نے حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت پیر4 اپریل تک کیلئے ملتوی کردی۔