سپریم کورٹ نے کنٹونمنٹ بورڈز اراضی پر کمرشل سرگرمیوں کیخلاف کیس کی سماعت کے موقع پر سیکرٹری دفاع کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دے دی

اسلام آباد:(سی این پی) سپریم کورٹ نے کنٹونمنٹ بورڈز اراضی پر کمرشل سرگرمیوں کیخلاف کیس کی سماعت کے موقع پر سیکرٹری دفاع کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا سینیما، شادی ہال، سکول اور گھر بنانا دفاعی مقاصد ہیں؟ سینما، شادی ہال اور گھر بنانا اگر دفاعی سرگرمی ہے تو پھر دفاع کیا ہوگا؟ کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروا رہے ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیں، فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا تو باقی کو کیسے گرائیں گے؟ فوج کیساتھ قانونی معاونت نہیں ہوتی وہ جو چاہتے ہیں کرتے رہتے ہیں، فوج جن قوانین کا سہارا لیکر کمرشل سرگرمی کرتی ہیں وہ غیر آئینی ہیں۔ گزشتہ روز چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کراچی کے کارساز کے علاقے میں سروس روڈ بھی بڑی بڑی دیواریں تعمیر کرکے اندر کر دی گئیں، کنٹونمنٹ زمین کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، کارساز اور راشد منہاس روڈ پر اشتہارات کیلئے بڑی بڑی دیواریں تعمیر کر دی گئی ہیں، فیصل بیس پر سکول، شادی ہال بھی بنے ہوئے ہیں، کوئی بھی شادی کا مہمان بن کر رن وے پر بھاگ رہا ہوگا، کہا جا رہا ہے کہ مسرور اور کورنگی ایئر بیسز بند کیے جا رہے ہیں، کیا اب ایئر بیس بند کرکے وہاں کمرشل سرگرمی شروع کرینگے؟ کنٹونمنٹ زمین دفاعی مقاصد پورا ہونے پر حکومت کو واپس کرنا ہوتی ہے، حکومت زمین انہیں واپس کرے گی جن سے ایکوائر کی گئی ہوں، فوج کو معمولی کاروبار کیلئے اپنے بڑے مقاصد پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، فوج کو اپنے ادارے کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے، کوئٹہ اور لاہور میں بھی دفاعی زمین پر شاپنگ مالز بنے ہوئے ہیں، سمجھ نہیں آرہی وزارت دفاع کیسے ان سرگرمیوں کو برقرار رکھے گی، اعلیٰ فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا ہے، فوج ریاست کی زمین پر کمرشل سرگرمیاں کیسے کر سکتی ہے؟ریاست کی زمین کا استحصال نہیں کیا جا سکتا ہے ، یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں پورے ملک کا یہی حال ہے، ایک ریٹائرڈ میجر گلوبل مارکی کیلئے زمین کیسے لیز پر دے سکتا ہے؟ ریٹائرڈ میجر کا کیا اختیار ہے کہ دفاعی زمین لیز پر دے سکے، فوج نے ریٹائرڈ میجر کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، چند لاکھ میں فوجی افسران نے زمین بیچی اب وہ گھر کروڑوں کے ہیں، جہاں چھوٹی سی جگہ دیکھتے ہیں وہاں اشتہار لگا دیتے ہیں، اتنی بڑی بڑی دیواریں بنانے کی وجہ سمجھ نہیں آتی، کنٹونمٹس کی تمام زمین اصل حالت میں بحال کرنا ہوگی، فوج کے تمام رولز اور قوانین کا آئین کے تحت جائزہ لینگے، فوج ملک کے دفاع کیلئے ہے نہ کہ کاروبار کرنے کیلئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب فوج کو قانون کون سمجھائے گا؟ پرل مارکی اور گرینڈ کنونشن ہال ابھی تک برقرار ہیں، کالا پُل کیساتھ والی دیوار اور گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرائیں، راتوں رات گزری روڈ پر فوج نے بہت بڑی عمارت کھڑی کر دی ہے، گلوبل مارکی سے روزانہ کروڑوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔ ایک موقع پر بینچ کے رکن جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آتا فوج کو کاروباری سرگرمیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ فوجی سرگرمیوں کیلئے گیریژن اور رہائش کیلئے کنٹونمنٹس ہوتے ہیں، سی ایس ڈی پہلے صرف فوج کیلئے تھا اب وہاں ہر بندا جا رہا ہوتا ہے۔ سماعت کے دوران سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ قانون کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کیلئے تینوں افواج کی مشترکہ کمیٹی بنا دی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس موقع پر اٹارنی جنرل کی طرف سے سیکرٹری دفاع کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ واپس لینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع سے چار ہفتے میں پیش رفت اور عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی جبکہ کیس کی مزید سماعت ایک ماہ تک کے لئے ملتوی کر دی۔