اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے لاپتہ مدثر نارو کی بازیابی کیس

اسلام آباد:(سی این پی)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے لاپتہ مدثر نارو کی بازیابی کیس میں وفاقی حکومت کو متاثرہ فیملی کو مطمئن کرنے اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری سےجس دور میں شہری لاپتہ ہوتاہے اس وقت کے چیف ایگزیکٹیوکی جیب سے متاثرہ فیملی کو۔معاوضہ کی ادائیگی سے متعلق رائےطلب کرلی۔گذشتہ روز سماعت کے دوران وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری،سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر،لاپتہ مدثر نارو کے والد کی جانب سے عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ ایمان مزاری ایڈووکیٹ بیماری کے باعث پیش نہ ہوئیں،اس موقع پر وفاقی کی جانب سے ایڈہشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ بھی کمرہ عدالت میں موجودتھے،چیف جسٹس نے کہاکہ شیریں مزاری صاحبہ ، آپ کو اس لیے زحمت دی کہ ریاست نظر نہیں آ رہی،ملک میں جبری گمشدگیوں کاphenomena ہے،کسی کا لاپتہ ہو جانا انسانیت کے خلاف جرم ہے، وزیراعظم اور کابینہ ارکان لوگوں کی خدمت کے لیے ہیں،لاپتہ شخص کی بازیابی کے لیے ریاست کا رد عمل pathetic ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہی،اگر اس عدالت میں کوئی بھی متاثرہ شخص آتا ہے کہ اس کا کوئی عزیز لاپتہ ہو گیا تو یہ ریاست کی ناکامی ہے،شیریں مزاری نے کہاکہ آپ نے پہلے بھی قیدیوں کے ایشو پر بلوایا تھا،جبری گمشدگیوں کا معاملہ ہمارے منشور میں تھا،ہم نے اس حوالے سے قانون سازی کی ہے، سینیٹ میں جلد بھجوایا جائے گا،پرائم منسٹر بننے سے پہلے بھی عمران خان کا اس ایشو پر واضح موقف رہا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ ریاست کی طرف سے کسی کو اغوا کرنا انتہائی سنگین جرم ہے،کسی آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو ریاست کا رد عمل کیا ہو گا؟،پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو پوری مشینری حرکت میں آ جائے گی، ریاست کا رد عمل عام شہری کے غائب ہونے پر بھی یہی ہونا چاہیے،عدالت کو بتایا گیا ہے کہ لاپتہ شخص کی اہلیہ بھی چل بسی ہے،تمام ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں،یہ سمریوں یا رپورٹس کی بات نہیں، مسنگ پرسن کے بچے اور والدین کو مطمئن کریں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی دیکھ بھال کرے اور متاثرہ فیملی کو سنے،وزیر انسانی حقوق ڈاکٹرشیریں مزاری نے کہاکہ بیان حلفی ابھی تک نہیں ملا، اس کے مطابق اخراجات کی ادائیگی کے لیے پراسیس کریں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ وزیراعظم کے پاس لے کر جائیں، کابینہ ارکان سے ملاقات کرائیں،شیریں مزاری نے کہاکہ وزیراعظم ان کو ضرور سنیں گے، پہلے ہم چاہتے ہیں کہ ان کے لیے اخراجات کی ادائیگی کا بھی پراسیس کر لیں،لاپتہ شخص کے کمسن بچے اور دادی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی جائے گی،اس سے پہلے آئندہ ہفتے تک ان کو compensation کی رقم کی ادائیگی کا پراسیس مکمل کرنے دیں،ہماری حکومت جبری گمشدگی کو سنگین جرم سمجھتی ہے، جمہوریت میں کسی کو لاپتہ کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کوشش کریں کہ یہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مطمئن ہو کر واپس آئیں،لاپتہ افراد کی ذمہ داری تو وزیراعظم کو کابینہ ارکان پر آتی ہے،ریاست کی بجائے compensation کی رقم وزیراعظم اور کابینہ ارکان کیوں نہ ادا کریں؟،تاکہ یہ معاملہ ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے،اگر کوئی 2002ء میں لاپتہ ہوا تو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرا کر اسے ازالے کی رقم ادا کرنے کا کیوں نہ کہا جائے؟،جبری گمشدگیوں میں صرف سٹیٹ نہیں نان سٹیٹ ایکٹرز بھی آتے ہیں، کسی نہ کسی کو تو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے،چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ اگر کوئی ایک لاپتہ ہو جائے تو اس کا پورا خاندان suffer کرتا ہے،شیریں مزاری نے کہاکہ آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں، ریاست کا رد عمل ہر مسنگ پرسن کیس میں ایک جیسا ہونا چاہئے،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بہت ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو ورنہ اس کو نہیں روکا جا سکتا، شیریں مزاری نے کہاکہ سابقہ حکومتوں نے اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ہم کر رہے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری آدھی زندگی نان ڈیموکریٹک حکومتوں میں گزری اور یہ انہی کا کیا کرایا ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایک ہفتے کا مزید ٹائم دے دیں،شیف جسٹس نے کہاکہ آپ کیا بات کر رہے ہیں، ایک بندہ تین سال سے لاپتہ ہے، چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے کہاکہ لاپتہ شخص کیس میں عدالتی حکم کے خلاف اپیل دائر کی گئی،چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے اس عدالت کا مائرہ ساجد کیس کا فیصلہ ڈویژن بنچ میں چیلنج کیا، آپ میں ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے، اس عدالت نے فیصلہ دیا جرمانہ عائدکیا اور آپ نے چیلنج کردیا،عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت13دسمبر تک کیلئے ملتوی کردی۔