اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے ڈیفنس کمپلیکس کو الاٹ کئے گئے علاقہ سے باہر نیشنل پارک میں تعمیرات کے خلاف کیس میں سیکرٹری دفاع کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا

اسلام آباد(سی این پی)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے ڈیفنس کمپلیکس کو الاٹ کئے گئے علاقہ سے باہر نیشنل پارک میں تعمیرات کے خلاف کیس میں سیکرٹری دفاع کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئےسیکرٹری داخلہ ،سیکریٹری دفاع ، چیئرمین سی ڈی اے کو بیان حلفی بھی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہاہے کہ آپ کو ان شہیدوں کا بھی خیال نہیں،ہر وقت قانون توڑا گیا یہ شہیدوں کی بھی توہین ہے۔گذشتہ روز سماعت کے دوران عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ آپ لاء آفیسر ہیں قانون کے خلاف بول رہے ہیں،یہ وفاقی دارالحکومت نہیں بلکہ اشرافیہ ہے یہاں کوئی رول آف لاء نہیں،اگر یہاں قانون کی خلاف ورزی ہو گی تو پھر اس آئینی عدالت کا کوئی فائدہ نہیں، میرے لیے بھی قانون کی پیروی ضروری ہے اگر میں بھی قانون کے خلاف جاؤں تو سی ڈی اے کاروائی کرے، غریب کی جھگی ہوتی ہے تو سارے قانون بتاتے ہیں امیر کی ہو تو نقشے لیکر آجاتے ہیں،عدالت کا فیصلہ ہے ایک اینٹ بھی سی ڈی اے کی منظوری کے بغیر نہیں ڈال سکتے،چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ جو حکام اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے انکے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے، آپکو ان شہیدوں کا بھی احساس نہیں جنہوں نے قربانیاں دیں،ہر بار قانون توڑا جاتا ہے اور ان شہیدوں کی تضحیک کی جاتی ہے، ڈیفنس کمپلیکس کی خلاف قانون دیوار بنانے کی اجازت کس نے دی، کیا آپ قانون توڑ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ۔جو یہ سب کر رہا ہے کیا اسکا کورٹ مارشل ہو گا؟سی ڈی اے صرف آ کر کہتا ہے کہ ہم نے نوٹس کر دیے ہیں،عدالت وفاقی حکومت اور سیکرٹری دفاع کو ہدایت جاری کر رہی ہے،تحقیقات کر کے ذمہ داران کا تعین کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے، چیف جسٹس اطہر من اللہ.نے یہ بھی استفسار کیا کہ کیا آپ سی ڈی اے کی منظوری کے بغیر ایک دیوار تعمیر کے سکتے ہیں،سی ڈی اے کی جانب سے جو منظوری دی گئی وہ مجھے دکھا دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر منظوری نہیں تو یہ قانون اور حلف کی بھی خلاف ورزی ہے،بڑے آدمی کی ہر چیز ریگولرائز ہو جاتی ہے،یہ عدالت اب کسی ایک غریب کی جھگی بھی گرانے نہیں دیگی، چیف جسٹس نے سی ڈی اے حکام کو ہدایت کی کہ جائیں اور گالف کورس کی غیرقانونی تجاوزات کا قبضہ واپس لیں،غیرقانونی تعمیر کا قبضہ لے کر آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کریں،الاٹ کی گئی زمین سے ایک انچ بھی باہر تعمیر نہیں کی جا سکتی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیوں اس چیز کا دفاع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو نہیں ہو سکتی،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ سیکٹر ای ٹین میں غیرقانون تجاوزات کے خلاف کیا اقدام اٹھایا گیا،سی ڈی اے 2012 سے اپنی تجاوز کی گئی زمین واگزار نہیں کروا سکا،ان غیر قانونی تجاوزات کا ذمہ دار کون ہے اس کے خلاف کیا قدم اٹھایا گیا،نمائندہ وزارت دفاع نے کہاکہ ملٹری نے ڈیفنس کمپلیکس کیلئے زمین کی ادائیگی کر کے خریدی ہے،چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ آپ کو قانون کا بالکل نہیں پتہ اور آپ قانون جاننا بھی نہیں چاہتے،یہ ملٹری کا پیسہ نہیں بلکہ عوام کا پیسہ تھا اور ریاست پاکستان نے زمین الاٹ کی، ذمہ داری سے بیان دیں کہ کیا دیوار کی تعمیر روک دی گئی ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی، دیوار کی تعمیر عدالتی حکم پر روک دی گئی ہے، عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت11جنوری تک کیلئے ملتوی کردی۔