مری سانحہ میں محکمہ ہائی وے پنجاب ، این ایچ اےکا چھپا ہوا افسوس ناک کردار سامنے آگیا، مری جانے والی سڑک پر برف کو ہٹانے اور سڑک پر ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کی بنیادی ذمہ داری ، (این ایچ اے) ، نیشنل ہائی وے ا تھارٹی ،محکمہ ہائی وے کی سب ڈویژن مشنری ومینٹی نیس سنی بینک مری کی تھی

اسلام آباد(سی این پی)مری کے سانحہ میں محکمہ ہائی وے پنجاب ، این ایچ اےکا چھپا ہوا افسوس ناک کردار سامنے آگیا، مری جانے والی سڑک پر برف کو ہٹانے اور سڑک پر ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کی بنیادی ذمہ داری ، پولیس، (این ایچ اے) ، نیشنل ہائی وے ا تھارٹی ،محکمہ ہائی وے کی سب ڈویژن مشنری ومینٹی نیس سنی بینک مری کی تھی، ڈیڑھ سو سے زاہد عملے اور برف وغیرہ ہٹانے کے لیے کروڑوں روپے کی مشنری بھی مشکلات کا شکار ہونے والے شہریوں کی مدد کو نہ پہنچ سکی، شدیدبرف باری کے الرٹ کے باوجود محکمہ ہائی وے کے ایس ای کے علاوہ بالخصوص ایکسین اور خاتون سمیت دو ایس ڈی او کوئی منصوبہ بند ی کرسکے نہ عملے اور مشنری کو بروقت کام میںلیاجاسکا، حتی کہ اہم اور حساس ترین پوانٹس کو بھی فوکس نہ کیاجاسکے حال ہی میں سڑک پر نمک اور مشنری وغیرہ کے لیے ایک کروڑ27لاکھ روپے مالیت کا ہونے والاٹھیکہ کسی کی جان بچانے اور مشکل ترین وقت کے شکار ہونے والے شہریوں کے کام نہ آسکا۔مری سانحے کے حوالے سے جب وجوہات اور ذمہ داری کا تعین کرنے کے ضمن میں معلومات لی گئی تو ذرائع نے انکشاف کیاکہ مری جانے والی قدیم روڈ (ایکسپریس وے)پر برف باری وغیرہ سے بچاؤ کے لیے اصل ذمہ داری محکمہ ہائی وے پنجاب، اور این ایچ اے کی ہے ، جس کو سپرویژن ایس ای طاہر انجم کے ذمہ تھی جب کہ فیلڈ میں کام اور منصوبہ بند ی وغیرہ کرنے کے لیے ایکسین سعد سلیم راجہ اور ہائی وے سب ڈویژن مری ایس ڈی او عیزا صالحاور این ایچ اے کی تھی،اسی طرح ایس ڈی او آصف خٹک کا تذکرہ بھی سننے کو ملا، ذرائع کاکہناہے کہ محکمہ ہائی وے سب ڈویژن مری وغیرہ کے پاس اس وقت ڈیڑھ سو ملازمین موجود ہیں جب کہ ارپوں مالیت کی سنوفال مشنری بھی موجود ہے جن کا کام ٹول پلازہ سے لے کر مری ، بھوربن ، گلڈنہ روڈ ، باڑیاں روڈ ، وغیرہ کے علاوہ آگے کوہالہ تک جانے والی روڈ کی حفاظت، مرمت ، تعمیر اور برف باری کے وقت برف ہٹاناہے، برف باری کے سیزن کی آمد سے قبل محکمہ ہائی وے کی جانب سے نمک اور بند مشنری وغیرہ کو چالوکرنے وغیرہ کے ضمن میں ایک کرو ڑ 27لاکھ روپے مالیت کا ٹھیکہ دیا، برف باری الرٹ جاری ہونے کے باوجود متذکرہ افسران مناسب اور کامیاب حکمت عملی ترتیب ہی نہ دے سکے اور نہ ہی انکی کوئی کوارڈنیشن دیگراداروں کے ساتھ ہونے بارے کوئی شواہد سامنے آسکے، متذکروہ افسران جن کے رویہ بارے سنائی دی جانے والی باتیں اس وقت کسی حدتک درست دکھائی دیں جب ان سے معلومات لینے اور سامنے آنے والی وجوہات بارے بات کرنے کے لیے متعد د بار کال کی گئی ، پھر انھیں واٹس ایپ پر سوال نامے بنا کر بھجوائے گئے مگر انھوںنے بات کرنے سے گریز کیااور کسی واٹس ایپ کا جواب بھی نہیں دیا، ذرائع کایہ کہناہے کہ موصوفہ ایس ڈی او اور ایکسین سعد سلیم راجہ تو برف باری شروع ہونے کے وقت موجود ہی نہ تھے، حالات خراب ہوتے گئے برف پڑتی رہی مگر انکی مشنری چلی نہ انکے پاس موجود ڈیڑھ سو کاعملہ کسی کام پر لگ سکا،ٹریفک پولیس سے کیا کوارڈنیشن رہااس بارے بھی کوئی آفیسر جواب دینے کو تیار نہیں، یہاں یہ امرقابل ذکرہے کہ اس معاملے میں اب تک جو رپورٹس سامنے آئی ہیں اس میں محکمہ ہائی وے ،پنجاب ،اور( این ایچ اے) نیشنل ہائی وے ا تھارٹی کے کردار کو چھپا کررکھاجارہاہے، سڑک پر برف کو صاف کرنے کی ذمہ داری محکمہ ہائی وے کی تھی تو ایس ای سے لے کر ایس ڈی او تک سب کو معطل کرکے انکوائری ہونی چاہیے حکومت نے انھیں اربوں روپے کی مشنری لے کر دی ہوئی ہے پھر یہ مشنری کیوں کام نہ آسکی، سینکڑوں افراد بھی محکمہ کے پا س موجود ہیں انکا کیافائدہ ، ادھر محکمہ ہائی وے کے ایس ڈی او آصف خٹک سے بات ہوئی تو انکاکہناتھاکہ اس معاملے میں سب کچھ ایکسین اور خاتون ایس ڈی او ہی بتاسکتی ہیں ، انکا یہ بھی کہناتھاکہ خاتون ایس ڈی او مکینکل کی ہیں مشنری بارے وہ ہی موقف دے سکتی ہیں ، ہماری سب ڈویژن کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ایس ای طاہر انجم سے سوال کیاگیاکہ کیا انھوںنے سانحہ مری کے ضمن میں کوئی انٹرنل انکوائری کی ہے کہ کون ذمہ دار ہے ، اور ہائی وے کی مشنری کیوں نہیں چل سکی، سڑک پر نمک کا چھڑکاؤ کیوںنہیں ہوسکا، مگر انھوںنے جواب نہیں دیا، جبکہ ایکسین سعد سلیم راجہ سے بات ہوئی تو انھوں ڈی سی سے میٹنگ کاکہہ کر فون بند کردیا، واٹس ایپ پر سوالات بھجوائے گئے تو انھوں نے جواب دینا گوارہ نہیں کیا۔ مری میں برف باری کے دوران سڑک پر کھڑی گاڑیوں میں 22افراد کے جاںبحق ہوئے تھے