نو ر مقدم قتل کیس ، ملزمان کے وکلا کے دلائل جاری، سماعت ملتوی

اسلام آباد(سی این پی)ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطاء ربانی کی عدالت میں زیر سماعت نورمقدم قتل کیس میں ملزمان کے وکلاء کی جانب سے حتمی دلائل جاری رہے۔گذشتہ روز سماعت کے دوران ملزمان کو عدالت پیش کیاگیا،تھراپی ورکس 5 ملزمان کے وکیل شہزاد قریشی کی حتمی دلائل شروع کیے تو عدالت نے وکیل سے استفسار کیاکہ۔آپ کن کن ملزمان کے وکیل ہیں، جس پر وکیل نے عدالت کو بتایاکہ دلیپ کمار، وامق ریاض،ثمر عباس،عبد الحق اور امجد محمود کا وکیل ہوں،عدالت نے استفسار کیاکہ یہ لوگ جائے وقوعہ پر کس وقت پہنچے تھے، جس پر وکیل نے کہاکہ یہ لوگ پاکستانی وقت کے مطابق رات 8 کے قریب جائے وقوعہ پر پہنچنے تھے، آرٹیکل 38 کہتا ہے کہ پولیس کے سامنے بیان کی کوئی ویلیو نہیں،ڈی وی آر کو دیکھیں کہ ملزم بآسانی نکل سکتا تھا لیکن وہ وہی موجود رہا،گھر میں تین لوگ موجود تھے اگر شواہد مٹانے ہوتے تو مٹا سکتے تھے،کرائم سین کا انچارج عمران کہتا ہے کہ جائے وقوعہ سے پسٹل، چاقو و دیگر سامان برآمد ہوتا ہے،ہمارے اوپر الزام ہے کہ ہم نے شواہد مٹائے ہیں کون سے شواہد مٹائے گئے، ڈی وی آر کے اندر پورا واقعہ موجود ہے،ہم نے مرکزی ملزم کو گرفتار کیا لیکن وہ ویڈیو غائب کر دی گئی،جائے وقوعہ پر کسی نے بھی شواہد کو مٹانے کی کوشش نہیں کی،امجد کے زخمی ہونے کے 25 منٹ بعد پولیس جائے وقوعہ پر پہنچتی ہے،امجد 8 بج کر 59 منٹ پر پمز اسپتال پہنچتا ہے،ڈی وی آر کھلنے کے بعد ثابت ہو گیا کہ میرے ملزمان نے مرکزی ملزم کو وہاں سے گرفتار کیا،میری استدعا ہے کہ یہ پانچوں ملزمان بےگناہ ہیں ان کو بری کیا جائے،تھراپی ورکس کے 5 ملازمین کے وکیل شہزاد قریشی کے حتمی دلائل مکمل ہونے پر سماعت میں وقفہ کردیاگیا جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پرتھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی کے حتمی دلائل شروع کردیے،عدالت کے جج نے وکیل سے کہاکہ آپ کی طبعیت اگر خراب ہے تو کرسی پر بیٹھ کر دلائل دے دیں،وکیل اکرم قریشی نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ہمارے خلاف چارج نمبر 13 لگایا طاہر ظہور کو زاکر اور عصمت نے فون کیا،طاہر ظہور کے متعلق کہا گیا ان کو ہدایت دی جاتی رہیں،اب پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کونسی ہدایات دی جاتی رہیں،سی ڈی آر کے علاوہ ریکارڈ پر کوئی شواہد موجود نہیں،وکیل اکرم قریشی نے عدالت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایااور کہاکہ سی ڈی آر بغیر ٹرانسکرپٹ کے بطور شواہد استعمال نہیں کی جا سکتی، پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر بھی ایف آئی آر درج نہیں کی،دفعہ 174 کا پرچہ تو پولیس پر بنتا ہے،پولیس افسران کی تمام تفتیش مقدمہ درج ہونے سے پہلے ہو چکی تھی،جس طرح سب کچھ گول مال (hotchpotch) نظر آتا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی پولیس نے کیسی تفتیش کی ہے،پولیس اسٹیشن میں بیٹھ کر پولیس نے ساری کاروائی کی ہے،مقدمے کی دو مختلف تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ کہانی بنائی گئی ہے،دوران سماعت وکیل اسد جمال نے ملزمان کو کمرہ عدالت میں بلانے کی استدعا کی جس پر عدالت نے کہاکہ آپ کیوں ملزمان کو کمرہ عدالت میں بلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے کہاکہ ملزم ذاکر جعفر سماعت کو سننا چاہتا ہے،مرکزی ملزم ظاہر جعفر،ذاکر جعفر سمیت چار ملزمان کو دوسری مرتبہ عدالت پیش کر دیا گیا، اکرم قریشی ایڈووکیٹ نے کہاکہ نو ساڑھے نو بجے کے قریب تمام پولیس افسران جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے، حقائق بتاتے ہیں کہ پولیس افسران سچائی کے ساتھ سامنے نہیں آرہے، تھراپی ورکس کے خلاف تو کسی نے کوئی شہادت ہی نہیں دی، تھراپی ورکس کا رابطہ ہونا کوئی جرم تو نہیں، پراسیکیوشن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنا ہوگا،استدعا ہے کہ شک کا فائدہ تھراپی ورکس کو دیا جائے،تھراپی ورکس کے چیف ایگزیکٹو طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی کے دلائل مکمل ہونے پر ملزمہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال کے حتمی دلائل شروع کرتے ہوئے کہاکہ اس بات کو چھپایاگیا کہ پولیس کو واقع کی اطلاع کہاں سے ملی،حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ پراسیکیوشن نے ہر معاملے میں پہلو تہی سے کام لیا،جو عینی شاہدین تھے انہیں بطور عینی شاہد ہی عدالت میں پیش کیاجاتا،ہمارے کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ پولیس ایک سرے سے دوسرے سرے تک نہیں پہنچ پاتی،قتل کے وقت کے حوالے سے بھی پراسیکیوشن نے بھی کنجوسی سے کام لیا، پراسیکیوشن نے کہا کہ قتل رات کو ہوا لیکن کوئی ٹائم لائن پیش نہیں کی گئی،ٹائم لائن قائم کیے بغیر کیس قائم نہیں کیا جاسکتا،ہم پر الزام ہے کہ ہم نے قتل کی اطلاع پولیس کو نہیں دی،ہم پر ثبوتوں کو جائے وقوعہ سے ہٹانے کا الزام لگایاگیاہے،کرائم سین انچارج یہ کہ سکتا تھا کہ ثبوتوں کو مٹانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ایسا کوئی بیان نہیں دیاگیا،مقتولہ نورمقدم کے موبائل یا وٹس ایپ کا ڈیٹا بھی نہیں لیاگیا،ملزم زاکرجعفر سے طاہر ظہور کو موصول ہونے والے میسج میں بھی کوئی ثبوتوں کو مٹانے والی بات نہیں ہے،اگر واقع میں ملوث ہوتے تو پہلی فلائٹ سے کراچی سے اسلام آباد کیوں آتے،عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے عدالت میں پڑھ کر سنائےاور کہاکہ عصمت آدم جی اور زاکر جعفر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں اور نہ کوئی دونوں پر مقدمہ بنتاہے،عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے عدالت میں دلائل مکمل کرلیے، ملزمان کے وکلاء کی جانب سے حتمی دلائل مکمل ہونے پر مدعی وکیل شاہ خاور نے عدالت میں دلائل دینا شروع کردیےاور کہاکہ تفتیش کے پورے عمل میں ملزمان کی جانب سے کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا،ملزم ظاہرجعفر کا فوٹوگریمیٹک ٹیسٹ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ میچ ہوا ہے،نورمقدم کے گھر میں داخلے کے بعد 38 گھنٹے بنتے ہیں، نورمقدم اپنے ساتھ کوئئ لگج نہیں لائی تھیں، نورمقدم جب گھر سے باہر جا رہی تھیں تو بہت گھبرائی ہوئی تھیں، ائیرپورٹ سے واپسی سے لےکر قتل تک نورمقدم کو اغواء کرکے رکھا،کوئی بھی ڈرگ پارٹی نہیں رکھی گئی اور نہ کوئی ڈرگ پارٹی سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آرہی ہے،غیرت کے نام پر قتل کرنے والی کہانی بھی مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے من گھڑت ہے،مدعی مقدمہ کے وکیل کی طرف سے دلائل جاری رہے اور عدالت نے سماعت کل  تک کیلئے ملتوی کردی۔