جج خط نہیں نوٹس جاری کرتا ہے،جو جج دبائو برداشت نہیں کرسکتا وہ کرسی پر کیسے بیٹھ سکتا ہے،طلال چوہدری

اسلام آباد (سیاسی رپورٹر) مسلم لیگ (ن) کے راہنماءسینیٹرطلال چودھری نے کہا کہ ، جج خط نہیںلکھتا بلکہ نوٹس جاری کرتا ہے،عدلیہ کو تمام پریشر سے آزاد ہونا چاہیے، دباؤ برداشت نہ کرسکنے والا انصاف کی کرسی پر کیسے بیٹھ سکتا ہے،عام آدمی کوعدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا وہ کس کو خط لکھے؟ توہین عدالت پر وزیراعظم سے لے کر رکن اسمبلی تک نااہل ہوسکتا ہے مگر توہین پارلیمنٹ پر کسی جج کو پارلیمنٹ نہیں بلایا جاسکتا،نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے راہنماءسینیٹرطلال چودھری کا مزید کہنا تھا کہ نان ایشو کو ایشو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ضلعی عدلیہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لیٹر لکھا ہے، اگر کسی خط کا نوٹس ہونا چاہئے تو پہلے ضلعی عدلیہ پر ہونا چاہئے، یہ پارلیمنٹ، سیاست دانوں کی بھی ناکامی ہے، عدلیہ کو بہتر بنانے میں پارلیمان کو اپنا رول ادا کرنا چاہئے تھا، آرٹیکل 62،63 پر پورا نہ اترنے والے ہی فیصلے کر رہے ہیں، ضلعی عدلیہ کا خط عام آدمی کے لئے بہت اہم ہے، عدلیہ پر کسی قسم کا پریشر نہیں ہونا چاہئے، وکلا جو پریشر ڈالتے ہیں وہ بھی پریشر ہے، عدلیہ کو تمام پریشرسے آزاد ہونا چاہیے،طلال چودھری نے مزید کہا کہ اگر ادارے اپنے نچلے اداروں میں انصاف نہیں کرتے تو پارلیمان کو سوموٹو لینا چاہئے۔مسلم لیگ ن کے راہنما ءسینیٹر طلال چوہدری نے کہا ہے کہ جو شخص پریشر نہیں لے سکتا تو انصاف کی کرسی پر کیسے بیٹھ سکتا ہے، جج خط نہیں بلکہ نوٹس جاری کرتا ہے، ججز وزیراعظم کو پھانسی یا اقتدار سے ہٹا دیتے ہیں،انھوں نے کہا کہ عام آدمی کو عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا وہ کس کو خط لکھے؟ توہین عدالت پر وزیراعظم سے لے کر رکن اسمبلی تک نااہل ہوسکتا ہےمگر توہین پارلیمنٹ میں کسی جج کو پارلیمنٹ نہیں بلایا جا سکتا، نواز شریف کو تاحیات نااہل کر دیں پھر کہیں کہ غلط فیصلہ ہوا تھا، ان کو نہ پوچھیں جنھوں نے نااہل کرنے کا فیصلہ کیا تھا، کون ہے جس کو ججز نوٹس نہیں کرسکتے،پوری دنیا میں ایک ہی ضابطہ ہے کہ ججز اپنے فیصلوں سے پہچانے جاتے ہیں،ججز لکھ کر کہہ رہے ہیں کہ ہماری کوئی نہیں سن رہا،ضلعی عدلیہ کو پریشر اور تحفظ سے بچانے کیلئے ہائیکورٹ ہوتا ہے،آپ کو تو جزا و سزا کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، عدلیہ کو تمام پریشر سے آزاد ہونا چاہیے،پارلیمنٹ کو سوموٹو لینا چاہیے، یہ سب سے بڑا ادارہ ہے ،مظاہرعلی نقوی کو ڈس مس کیا گیا تاحال وہ اسی گھر میں رہ رہے ہیں، اعجازالاحسن نے چار لائنیں لکھیں اور اب پنشن بھی لیں گے، سزا اور جزا کا سسٹم عدلیہ کے اندر بہتر ہونا چاہئے۔