اسلام آباد (سٹاف رپورٹر)اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (نیفڈا) کے ملازمین کو رائٹ سائزنگ کے تحت ملازمت سے برطرف کیے جانے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار اویس ملک سمیت دیگر ملازمین اپنے وکلاء کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نیفڈا کی جانب سے وکیل علی نواز کھرل او ملازمین کے وکیل محمد رمضان خان عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے نیفڈا کی جانب سے ملازمین کی برطرفی کے احکامات پر پہلے سے جاری حکمِ امتناع میں آئندہ سماعت 3 ستمبر تک توسیع کر دی عدالت نے استفسار کیا کہ اگر یہ برطرفیاں حکومتی پالیسی کے تحت کی گئی ہیں تو وفاقی حکومت کو فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟ جس پر عدالت نے درخواست گزاروں کو ہدایت کی کہ وفاق کو بھی مقدمے میں فریق بنایا جائے نیفڈا کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اتھارٹی کے قیام کے بعد سے کوئی آمدن نہیں ہوئی، جس کے باعث حکومتی پالیسی کے تحت برطرفی کے احکامات جاری کیے گئے۔
نیفڈا کے وکیل نے کہا کہ جوابات پہلے ہی جمع کرائے جا چکے ہیں، مگر جب ریکارڈ چیک کیا گیا تو کوئی جواب جمع نہیں پایا گیا۔ اس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور وکیل کی سرزنش کی عدالت نے نیفڈا کے وکیل کو تحریری جوابات فوری جمع کروانے کی ہدایت جاری کی۔ ساتھ ہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے جی) کو ہدایت کی گئی کہ وفاق کا جواب بھی عدالت میں جمع کروایا جائے عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر حکومت پاکستان کی پالیسی کے مطابق کوئی ادارہ بند کرنا ہو، تو اس کا باقاعدہ طریقہ کار ہوتا ہے۔ محض ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ملازمین کو فارغ کرنا پالیسی کے مطابق نہیں جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ کنٹریکٹ یا سیکشن پوسٹس پر کام کرنے والے ملازمین کے بھی قانونی حقوق ہوتے ہیں، جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا عدالت نے کیس کی اگلی سماعت 3 ستمبر مقرر کرتے ہوئے حکم دیا کہ وفاقی حکومت پیراوائز (paragraph-wise) کمنٹس جمع کروائے اور تمام فریقین مکمل جواب عدالت میں جمع کروائیں۔