قدرتی آفات کے اثرات کو برداشت کرنے کے لیے قدرتی آفات سے متاثرہ کمیونٹیز کو وسائل اور مہارتوں سے بااختیار بنانابہت ضروری ہے، رومینہ خورشید عالم

اسلام آباد. وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ ملک میں بار بار آنے والی اور شدت اختیار کرنے والی قدرتی آفات کے اثرات کو برداشت کرنے کے لیے قدرتی آفات سے متاثرہ کمیونٹیز کو وسائل اور مہارتوں سے بااختیار بنانابہت ضروری ہے تا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خطرے کو کم کیا جاسکے ۔پیر کو یہاں ایک اعلیٰ سطحی مکالمے ‘دی ریسیلینٹ ریفلیکشنز’ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم کی آب و ہوا بارے معاون نے زور دیا کہ ضروری تربیت اور وسائل فراہم کرنے سے کمیونٹیز کو قدرتی آفات کے لیے بہتر تیاری، امدادی کارروائیاں کرنے اور بحالی میں مدد ملتی ہے اور یہ ان کی آب و ہوا کی لچک کو بڑھانے کے لیے ناگزیر ہے۔ کیونکہ، افراد کو مہارتوں اور وسائل سے آراستہ کرنا پائیدار معاش کا باعث بن سکتا ہے، جس سے کمیونٹیز کو تباہی کے بعد معاشی، سماجی اور نفسیاتی طور پر واپس آنے میں مدد مل سکتی ہے۔آب و ہوا کے بارے میں وزیر اعظم کی معاون نے کہا کہ کمیونٹیز، انفراسٹرکچر اور ماحولیاتی نظام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک علاقے میں لچک پیدا کرنا دوسرے پر مثبت اثر ڈالتا ہے، مجموعی طور پر ایک زیادہ پائیدار اور موافق ماحول پیدا کرتا ہے۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے وسائل، علم اور مہارت کے ساتھ کمیونٹی کو بااختیار بنانے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے، رومینہ خورشید نے کہا کہ جب ضروری وسائل اور مہارتوں کے ساتھ بااختیار بنایا جاتا ہے، تو لچکدار کمیونٹیز قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے اور ان سے صحت یاب ہونے کے لیے بہتر طور پر لیس ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سطح کی قیادت کو فروغ دے کر اور آفات سے نمٹنے کے لیے تیاری، وسائل اور مہارتوں کے بارے میں تعلیم فراہم کر کے، ہم انہوں نے کہاآب و ہوا کے خطرے سے دوچار اپنی کمیونٹیز کی حفاظت اور بہبود کو بڑھا سکتے ہیں،اس تقریب کا انعقاد اسلامک ریلیف، نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ (این ڈی آر ایم ایف) اور ایشیائی ترقیاتی بنک نے مشترکہ طور پر موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کی وزارت کے تعاون سے کیا تھا اور اس میں وفاقی اور صوبائی تنظیموں کے سینئر حکام، قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں، تعلیمی اداروں، محققین اور میڈیا نے شرکت کی، انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات، بشمول شدید موسمی واقعات، سیلاب اور وسائل کی کمی کا سامنا کر رہا ہے، موجودہ حکومت متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر لچک اور موافقت کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے کمیونٹیز، ان کے ذریعہ معاش، ماحولیاتی نظام اور سرکاری انفراسٹرکچر بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لچک پیدا کرنا صرف ایک حکمت عملی نہیں ہے، یہ ہمارے مستقبل کے لیے ایک ضرورت ہے، جو موسمیاتی بحران کی وجہ سے خطرے میں ہے’ مستحکم مستقبل کے حصول کے لیے، تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تنظیموں اور دیگر قومی اور بین الاقوامی سول سوسائٹی کی تنظیموں کے لیے ا اشد ضروری ہے کہ وہ پائیدار اور لچکدار مستقبل کے سلسلہ میں کمزور کمیونٹیز کو مہارتوں اور وسائل سے بااختیار بنانے، سرکاری انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے اور ماحولیاتی نظام کی حفاظت کے لیے مل کر کام کریں۔رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ مضبوط انفراسٹرکچر کے لیے، اقتصادی استحکام اور تحفظ بہت ضروری ہے، سڑکوں، پلوں اور پانی کے انتظام کے نظام کو اپ گریڈ یشن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو برداشت کرسکنے، تباہ کن ناکامیوں کے خطرے کو کم کرنے کو یقینی بناتی ہے۔

پاکستان کو درپیش کثیر جہتی خطرات کو تسلیم کرتے ہوئے، جن میں بار بار سیلاب، خشک سالی، اور زلزلے کی سرگرمیاں شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی پائیداری، آفات کے خطرے میں کمی، اور کمیونٹی کی شمولیت کو مربوط کرنے والے ایک جامع نقطہ نظر کے ذریعے مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنانا بہت ضروری ہے۔، رومینہ خورشید عالم نے زور دیا کہ آفت کے وقت کمیونٹیزمیں برداشت پیدا کرنے، بحالی اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ایک جامع ماحول کو فروغ د یا جائے ھس سے، ہم آب و ہوا کے خطرے سے دوچار کمیونٹیز کی آوازوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں سننے اور ان پر غور کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، جو بالآخر ایک زیادہ منصفانہ اور لچکدار معاشرے کی طرف لے جاتے ہیں.