تحریر : طیبہ بخاری
شیریں مزاری کی گرفتاری کا معاملہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا ہوا ہے ….گرفتاری کیسے ہوئی ….. کس نے کی…..کیا ہوا ….اور کب ہوا ……کس نے کیا کہا اور شیریں مزاری اب کہاں ہیں اور ان کی گرفتاری کو سیاسی حلقے کس نظر سے دیکھ رہے ہیں …؟ اس کے بارے میں تمام تر معلومات مختصراً بیان کی جائیں تو …… تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ زمین پر قبضے کے کیس میں اینٹی کرپشن پنجاب کی ٹیم نے شیریں مزاری کو گرفتار کیا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ اینٹی کرپشن پنجاب کی ٹیم انہیں گرفتار کرنے اسلام آباد پہنچی تھی۔اسلام آباد پولیس نے بھی اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی جانب سے شیریں مزاری کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
شیریں مزاری کی گرفتاری پر ان کی بیٹی ایمان مزاری نے میڈیا سے گفتگو میں مرد اہلکاروں پر والدہ کو تشدد کانشانہ بنانے کا الزام عائد کر دیاہے۔ ایمان مزاری کے مطابق” مرد پولیس اہلکاروں نے میری ماں کو مارا اور پیٹا، وہ میری ماں کو مارتے ہوئے ساتھ لے گئے ، صرف مجھے یہ بتایا گیاہے کہ گرفتارکرنے والے اینٹی کرپشن ونگ لاہور کے اہلکار ہیں۔ خاندان کو بتائے بغیر گرفتار کیا گیا ،یہ گرفتاری نہیں اغوا ہے میری والدہ کو اغوا کیا گیا ہے ،یہ حکومت ایسی حرکتیں کرے گی تو میں ان کے پیچھے آﺅں گی ،میری والدہ کو کچھ ہوا تو میں ان کو چھوڑوں گی نہیں “۔اینٹی کرپشن پنجاب کی طرف سے زمینوں کے کیس میں ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف تحریک انصاف نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے بتایا کہ ” شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف تحریک انصاف نے پورے ملک میں احتجاج کی کال دی ہے، کارکنوں سے گزارش ہے آج شام 7بجے پورے ملک میں اپنی مقامی قیادت کی ہدایات کی روشنی میں احتجاج کیلئے باہر نکلیں “۔فواد چوہدری نے شیریںمزاری کی گرفتاری پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے اگر اعلان جنگ ہے تو ہماری طرف سے بھی اعلان جنگ ہے۔ شیریں مزاری پر تشدد کیا گیا، کپڑے پھاڑے گئے اور بہیمانے طریقے سے گاڑی میں لے جایا گیا۔ اس کو گرفتاری نہیں اغواءکہا جائے گا، ہمیں نہیں پتہ کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ اب اگر لڑائی ہونی ہے تو لڑائی ہی ہونی ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز نے کہا کہ حکومت اتنی بوکھلا گئی ہے کہ پہلا وار ہماری خاتون لیڈر پر کیا۔ شیریں مزاری ملک کا سرمایہ ہے، ان کو بہیمانہ طریقے سے گھسیٹ کر اغواءکیا گیا۔
سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے شیریں مزاری کی گرفتاری پہ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے گرفتاریوں کا فیصلہ کرلیا اور ملک میں حالات خراب کرنے جارہی ہے۔ یہ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے، حکومت ملک میں حالات خراب کرنے جارہی ہے۔ شیریں مزاری صاف ستھری سیاستدان ہیں۔ ہم نے ساری زندگی اصولوں پرمقابلے کیے ہیں، ایسی گرفتاریاں ہوتی ہیں توبالکل تیارہیں، اب فیصلہ لانگ مارچ کی طرف بڑھ رہاہے۔انھوں نے اپنے پولیس افسر اسلام آباد میں لگا دیے ہیں، یہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
آخر میں معروف صحافی رﺅف کلاسرا کی ایک قابل ذکر ٹوئیٹ کا ذکر کرتے چلیں تو سینئر صحافی رﺅف کلاسرا نے تحریک انصاف کو ماضی یاد دلا دلاتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ” شیریں مزاری گرفتاری سے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لیہ ندا چٹھہ یاد آگئی۔چند ماہ پہلے گھر کے مفرور سربراہ کو سرنڈر کروانے کے لیے حاملہ خاتون اور 7 سالہ بچی سمیت سات گھریلو خواتین کو اٹھو ا لیا، جب خبر عام ہوئی تو انہوں نے 5خواتین پر جھوٹا پرچہ دے کر جیل بھیج دیا لیکن تحریک انصاف کی حکومت سمیت کسی نے مظلوموں کی مدد نہیں کی “۔
تادم تحریر تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری کیخلاف اسلام آباد ہائیکور ٹ میں پٹیشن دائر کر دی گئی ہے۔ شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کی جانب سے درخواسست دائر کی گئی ہے ،اسلام آباد ہائیکورٹ کی انسٹی ٹیوشن برانچ کا عملہ چھٹی کے بعد دوبارہ ہائیکورٹ پہنچ گیاہے۔
شیریں مزاری کو کس جرم اور کس کیس میں گرفتار کیا گیا ہے ، اس حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر جو خبریں گردش کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق کچھ ہفتے قبل سینئر کالم نویس جاوید چودھری نے شیریں مزاری کے خاندان کی طرف سے زمین پر قبضے کی کہانی کالم کی صورت میں لکھی تھی جن میں سے سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کو بھی حصہ ملا۔اپنے کالم میں جاوید چودھری نے لکھا تھا کہ “شیریں مزاری کے والد سردار عاشق محمود خان مزاری پنجاب کے آخری ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے بڑے فیوڈل لارڈ تھے‘ یہ ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کی لینڈ ریفارمز کے دوران فیوڈل لارڈزسے زمینیں لے کر مزارعوں اورہاریوں میں تقسیم کر دیں گئیں تو سردار عاشق مزاری کی زمین بھی تقسیم ہو گئی۔ لینڈ ریفارمز کو پتا چلا موضع کچہ میانوالی کی40 ہزار کنال زمین کی جمع بندی اور پرت سرکار دونوں ملی بھگت سے غائب کر دی گئی ہیں‘اس زمانے میں سردار کو جب بھی ریکارڈ کی ضرورت پڑتی تھی تو اہلکار پورا محکمہ مال اٹھا کر سائیں کے گھر لے آتے تھے‘ 1971میں بھی یہی ہوا‘ محکمہ مال کے اہلکار عاشق مزاری کا ریکارڈ بھی ان کے ڈیرے پر لے آئے اور جعلی ریکارڈ بنا دیاگیا ‘ اس پر ڈپٹی کمشنر کی جعلی مہریں تک لگا دیں‘ اصل ریکارڈ کا صندوق سردار کے وفادار پٹواری کے گھر رکھوا دیا گیا جس کا مقصد چھاپے سے بچنا تھا۔ پٹواری بھی خوف زدہ تھا‘ اس نے اپنے نائب قاصد کو اعتماد میں لیا اور صندوق اس کے گھر میں چھپا دیا ‘بہرحال قصہ مختصر 40 ہزار کنال زمین کا نیا ریکارڈ بنایاگیا‘ مختلف کمپنیاں بنائی گئیں اور وہ زمینیں ان کمپنیوں کے نام منتقل ہو گئیں۔عاشق مزاری کے خلاف کیس شروع ہوا اور فیڈرل لینڈ کمیشن نے 1975میں کمپنیوں کو جعلی قرار دے دیا‘ مزاری فیملی کے خلاف قانونی کارروائی کاحکم جاری ہو گیا اور یہ مقدمہ 50 سال چلتا رہا‘ عاشق مزاری کا دعویٰ تھا زمینیں اگر محکمہ مال کی ملکیت ہیں تو یہ ریکارڈ لے کر آئے‘ عدالت محکمہ مال کو ریکارڈ لانے کا حکم دیتی تھی اور اصل ریکارڈ غائب تھا‘ زمینیں اس دوران اربوں روپے کی بھی ہو گئیں اور تقسیم بھی ہوتی رہیں اور فروخت بھی‘ سردار عاشق مزاری کا انتقال ہو گیا اور یوں شیریں مزاری‘ ان کے بھائی سردار ولی محمد مزاری اور ان کی والدہ درشہوار مزاری اس پراپرٹی کے ”بینی فیشری“ ہو گئے، وقت گزرتے گزرتے یہ معاملہ فیڈرل لینڈ کمیشن اور عدالتوں سے ہوتا ہوا اینٹی کرپشن پنجاب پہنچ گیا”۔
کالم نویس کے مطابق “مزاری فیملی کے خلاف تفتیش شروع ہوئی اوریہ چلتی رہی‘ اس دوران ریکارڈ غائب کرنے والا پٹواری گرداور ہوا‘ ریٹائر ہوا اور فوت ہو گیا‘ وہ نائب قاصد جس کے گھر میں اصل ریکارڈ کا صندوق تھا وہ بھی دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن کیس عدالتوں اور اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے درمیان کبھی اِدھر ہو جاتا تھا اور کبھی ادھر‘ شیریں مزاری 2008میں سیاست میں آگئیں۔پھر وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کیس میں ان کی سپورٹ کرنے لگے‘ ڈی جی اینٹی کرپشن گوہر نفیس شہزاد اکبر کے دست راست تھے لہٰذا روجھان کی زمینوں کی تفتیش الماریوں میں بند کر دی گئی لیکن آپ بدقسمتی دیکھیے‘ شہزاد اکبر کے بعد گوہر نفیس تبدیل ہو گئے اور ان کی جگہ رائے منظور آگئے ، ان کے پروفائل میں درجنوں ہائی پروفائل کیس موجود ہیں، یہ مار کھا کر بھی پیچھے نہیں ہٹتا لہٰذا ہر حکومت اس کے خلاف ہو جاتی ہے‘ بہرحال رائے منظور نے چارج سنبھالا تو وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے انھیں بلا کر شیریں مزاری کی سفارش کی لیکن یہ سفارش الٹی پڑ گئی”۔
انہوں نے مزید بتایا کہ “عثمان بزدار اگر ڈی جی کو نہ کہتے تو شاید یہ کیس مزید کچھ عرصہ فائلوں میں دبا رہ جاتا لیکن جوں ہی صوبے کے چیف ایگزیکٹو نے سفارش کی تو رائے منظور نے فائل کھولی اور 40 ہزار کنال کی تفتیش شروع کر دی ،50 سال بعد ریکارڈ کے اصل صندوق تک پہنچ گیا‘ صندوق تاحال نائب قاصد کے گھر پر پڑا تھا۔اینٹی کرپشن کی ٹیم اس کے گھر تک پہنچی اور اصل ریکارڈ قبضے میں لے لیا ‘ یہ بڑا بریک تھرو تھا‘ رائے منظور نے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کا حکم دے دیا‘ یہ خبر وزیراعلیٰ ہاؤس پہنچی تو عثمان بزدار نے ڈی جی کو طلب کر لیا‘ وہ حالت بیماری میں سی ایم آفس پہنچے‘ وزیراعلیٰ نے انھیں ایف آئی آر سے روک دیا لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہاکہ آپ میرا تبادلہ کر دیں مگر میں ایف آئی آر سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا‘وزیراعلیٰ نے رائے منظور کے تبادلے کا حکم دیا مگر عدم اعتماد کی وجہ سے حالات بدل گئے اور یہ تبادلہ نہ ہو سکا‘ دوسری طرف رائے منظور نے پہلی فرصت میں ”کچہ میانوالی“ زمین کی ایف آئی آر بھی درج کرا دی اور لگے ہاتھوں مکمل تفتیش کا حکم بھی جاری کر دیا”۔
یہ کیس کیا ہے۔۔۔۔۔کتنا سچ اور کتنا جھوٹ۔۔۔۔ہم کچھ نہیں جانتے۔ تفتیشی و قانونی ادارے جانیں اور ان کا کام۔۔۔۔۔۔خبروں اور معلومات کی حد تک جو کچھ تھا وہ ہم نے سب مختصراً بیان کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔قانون اور انصاف کے دروازے سب کیلیے بناء کسی وقت کی قید و بندش کے کھلے رہنے چاہئیں۔۔۔۔اس کیس کی ٹائمنگ پر بھی بات کرنی ہو گی کیونکہ یہ سب اچانک نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ابھی ایک روز قبل تحریک انصاف کے کپتان نے اپنے جلسے میں مریم نواز کے بارے میں جوالفاظ استعمال کیے ، ملک بھر میں ان پر بحث و مباحثہ جاری تھا اور آج شیریں مزاری کو جس انداز میں گرفتار کیا گیا ہے اس نے نئی بحث چھیڑ دی ہے، تحریک انصاف خاموش نہیں رہے گی ملک گیر احتجاج کا اعلان ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔سیاست اور سیاستدانوں کا ”حشر“ سب کے سامنے ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں۔۔۔۔نئی نسل کیا سبق سیکھ رہی ہے یہ ہم سب کیلیے لمحہ فکریہ ہے۔۔۔۔۔
قابل غور تو مریم نواز کا مسلم لیگ (ن) کا سوشل میڈیا سے خطاب بھی ہے جس میں انہوں نے بہت سے معاملات پر کھل کر گفتگو کی ، شیریں مزاری کی گرفتاری سے متعلق جب وہ یہ کہہ رہی تھیں کہ “اینٹی کرپشن نے اگر گرفتار کیا ہے تو ان کے پاس کوئی وجہ بھی ہوگی،قانون کا سامنا کریں ۔“ تو عین اسی وقت مریم نواز کا خطاب روک کر ٹی وی چینلز نے یہ خبر چلائی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے شیریں مزاری کی فوری رہائی کا حکم دیدیا ہے انکا کہنا تھا کہ ” شیریں مزاری کی گرفتاری کے عمل سے اتفاق نہیں کرتا “۔۔۔۔۔۔۔اس سارے معاملے میں اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی اس گرفتاری اور رہائی کے حکم سے ”اتفاق “ کرتی ہے یا نہیں ۔۔۔؟ اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے ”اتفاق “ کرتے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔۔خود مسلم لیگ (ن) میں مختلف ایشوز پر ”اتفاق “ ہے یا نہیں ۔۔۔۔؟
/ img src="https://capitalnewspoint.com/wp-content/uploads/2024/09/Sarhad-University-Expands-Its-Horizons-with-the-Launch-of-Islamabad-Campus-1.jpg">