تحریر: اکرم عامر سرگودھا
سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی، کل کے حریف سیاستدان مفادات کی خاطر حلیف بن جاتے ہیں اور حلیف حریف، جس کی واضح مثال تقریبا چار سال قبل بننے والا پی ڈی ایم کا اتحاد ہے، عرصہ قبل تک ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے اور گالیاں دینے والے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جمعیت علماءاسلام اور دیگر اتحادی جماعتوں کے سیاستدان اکٹھے ہوئے اور عمران خان کے مخالف پی ڈی ایم اتحاد بنا ، پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تحریک چلائی گئی، حالانکہ ماضی کی تاریخ دیکھی جائے تو مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف، نواز شریف، آصف زرداری کے بارے، مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے بارے جبکہ آصف علی زرداری شریف برادران کے بارے میں ایسے سنگین الزامات عائد کرتے رہے کہ محسوس ہونے لگا کہ یہ سیاستدان مستقبل میں کبھی اکٹھے نہیں ہونگے؟ 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو متذکرہ جماعتیں پی ڈی ایم کے اتحاد کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئیں، اب کئی سال سے یہی سیاستدان جو ماضی میں ایک دوسرے کے دشمن نظر آتے ہیں، ایک پلیٹ میں کھاتے نظر آ رہے ہیں، کیونکہ ان سیاستدانوں کا مشن اقتدار حاصل کرنا تھا، جس میں وہ کامیاب بھی ٹھہرے اور پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان کو حکومت سے اتارنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔
ہماری قوم کا یہ المیہ ہے کہ ہم جس جماعت کے کارکن ہوتے ہیں اس کے قائدین کو ملک کیلئے مسیحا قرار دیتے ہیں اور اپنی سیاسی جماعت کے دفاع میں کارکنان دوسری جماعت کے کارکنوں کو برا بھلا کہتے نظر آتے ہیں، کئی واقعات میں تو سیاسی جھگڑے مخالفت میں اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ وہ دشمنیوں میں تبدیل ہو گئے، بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان دشمنیوں نے کئی انسانی جانیں بھی لے لی ہیں۔ بات اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ کچھ سالوں سے کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو دیکھتے ہی مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اپنے مخالف سیاسی جماعت کی شخصیات کیخلاف نعرہ بازی کی، ایسے کئی واقعات ایئر پورٹس، پبلک مقامات پر رونما ہوئے، حتیٰ کہ مسلم لیگ (ن) کے قائدین اقتدار سنبھال کر عمرہ کیلئے سعودی عرب گئے تو وہاں بھی ایک ایسا ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا، جس نے دنیا میں پوری قوم کا سر جھکا کے رکھ دیا، اس واقعہ کو یورپی بالخصوص ہندوستان کے میڈیا نے اپنے مقصد کیلئے خوب اچھالا، سو ایسے کئی اور واقعات بھی رونما ہوئے، لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت نے آج تک اپنے کارکنان کی اس حوالے سے تربیت کرنے کی زحمت نہیں کی، جو کہ جمہوری ملک کیلئے المیہ سے کم نہیں ہے؟
اسی نوعیت کا ایک واقعہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کے ساتھ بھیرہ انٹر چینج پر دیکھنے میں آیا جب احسن اقبال برگر کھانے کیلئے اترے ہی تھے کہ ایک فیملی نے ان کی حکومت اور ان کیخلاف غلیظ قسم کی نعرہ بازی کی اور یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر دی، سو کہ احسن اقبال نے اس فیملی کیخلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ ان کا بڑا پن تھا، کیونکہ وہ پڑھے لکھے انسان ہیں، جس پر نعرہ بازی کرنے والی فیملی کو بھی ندامت ہوئی اور وہ معذرت کرنے کیلئے نارووال احسن اقبال کے گھر پہنچ گئی تو احسن اقبال نے انہیں کھلے دل سے عزت دی، راقم ویڈیو دیکھ کر پریشان اور حیران ہے کہ ہمارا معاشرہ کس رخ جا رہا ہے، احسن اقبال ہاروڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل سکالر ہیں اور استاد کو باپ کا درجہ دیا گیا ہے اور معاشرہ پر ان کا احترام فرض قرار دیا گیا ہے، مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا چل رہا ہے، مرد اور خواتین کے ساتھ 10 سال کی بچی بھی نعرے بازی کر رہی تھی، سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بچی کس فہم اور شعور کی بنیاد پر اپنی باپ کی عمر کے فاضل ترین انسان کو برا بھلا کہہ رہی تھی، جس بچی کو شاید یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ پچھلے الیکشن کس سن میں ہوئے تھے، یہ ہے وہ المناک چہرہ ہے کہ قوم جس سیاسی جماعت سے وابستگی رکھتی ہے بغیر سوچے سمجھے اس کے مخالف سیاسی جماعت کے قائدین کو برا بھلا کہہ دیتی ہے، یہ بگاڑ معاشرہ میں بڑھتا جا رہا ہے، ایسے واقعات دنیا میں ملک کیلئے جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں۔
سیاست سماج کی ایک مشترکہ اساس کا نام ہے، جہاں مختلف خیال کی جماعتیں اپنے اپنے منشور، فہم اور سوچ کے مطابق آگے بڑھتی ہیں، مگر ہمارے ملک میں معاملہ اس کے برعکس ہے، ہم جس جماعت سے وابستہ ہیں، اس کی قیادت کو پارسا کہتے ہیں اور مخالف جماعت کے قائدین کو چور، ڈاکو اور لٹیرا سمجھتے ہیں، یہی ہماری قوم کی بے عقلی ہے، حالانکہ یہی سیاستدان بوقت ضرورت سیاسی اتحاد کر کے ماضی کی غلطیاں بھلا کر اقتدار کیلئے اکٹھے ہو جاتے ہیں، جیسا کہ 2018ءمیں عمران خان کی حکومت اقتدار میں آئی تو آپس کی سیاسی دشمن جماعتیں پی ڈی ایم کے اتحاد کی صورت میں اکٹھی ہو گئیں، اب ماضی کے دشمن سیاستدان ایک پیالی میں چائے اور ایک پلیٹ میں کھانے کھا رہے ہیں، مگر ہماری قوم کا حال اس کے بر عکس ہے، ہم جس جماعت کے کارکن ہیں اسی کے گن گاتے ہیں، مخالف جماعت کے قائدین اور کارکنان تو ہمارے معاشرے کے لوگوں کو زہر لگتے ہیں، اسی وجہ سے سیاسی دشمنیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
دنیا بھر کے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو جن ممالک کے عوام کی تربیت نہیں ہوتی ان ممالک کی عوام بے لگام ہوتی ہے اور وہاں سیاستدانوں، و شخصیات کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، اور جن ملکوں میں حکمران مسائل حل کرنے کے ساتھ قوموں کی تربیت کرتے ہیں وہی ملک میں دنیا میں ترقی یافتہ ہیں، کاش کوئی ملک پر ایسا حکمران مسیحا آئے جو قوم کے مسائل حل کرنے کے ساتھ قوم کی تربیت بھی کرے، پھر نہ تو سعودی عرب جیسا واقعہ پیش آئے گا اور نہ ہی بھیرہ جیسا۔اس کیلئے قوم کو بھیڑچال چھوڑ کر سوچ اور شعور کو پختہ کرنا ہو گا اور ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھجوانا ہو گا جو واقعی ملک اور قوم کا درد رکھتے ہوں، اگر ایسا نہ ہوا تو پھر اس ملک کے سیاسی کارکنان کو کوئی لگام نہیں دے سکے گا۔
/ img src="https://capitalnewspoint.com/wp-content/uploads/2024/09/Sarhad-University-Expands-Its-Horizons-with-the-Launch-of-Islamabad-Campus-1.jpg">