سری لنکا اور بنگلادیش پر معاشی بحران کا سایہ ….کیا اب پاکستان کی باری ہے ….؟ ۔۔۔ تحریر :طیبہ بخاری

یہ کیا ہو رہا ہے سری لنکا میں …..؟
بد ترین پہیہ جام ہو گیا …..عوام کیلئے پیٹرول ندارد…….
کولمبو پورٹ پر پیٹرول کی شپمنٹ 28 مارچ سے کھڑی ہے لیکن لنکن حکومت کے پاس اتنے ڈالرز نہیں کہ اپنے ملک کیلئے پیٹرول خرید سکے ….
سری لنکا میں اب کوئی پبلک ٹرانسپورٹ ، نجی گاڑیاں یا موٹر بائیکس نہیں چل رہیں ….چل رہی ہے تو صرف ایمبولینس ….وہ بھی صرف ہنگامی صورتحال کیلئے ……
یہ کیا ہو گیا سری لنکا کو ….؟ کون کھا گیا سری لنکا کا سرمایہ …..؟کون نگل گیا پوری کی پوری معیشت ……؟
کس نے چھین لیں عوام کی روٹی ، روزی اور خوشیاں ….؟ کیوں ہیں عوام سڑکوں پر….کیوں ہے اُن کے سر پر خون سوار ….؟ کون ہے تباہی کا ذمہ دار ….؟
کیوں عوام حکومتی نمائندوں ، وزیروں، مشیروں پرغصہ نکال رہے ہیں…؟
اور بھی ان گنت سوالات ہیں جن کے جواب ہمیں دینے کی ضرورت نہیں …دنیا بھر کے عوام جان چکے ہیںکہ سری لنکا نے یہ دن کیوں اور کن لوگوں کی وجہ سے دیکھے ….؟
صاف ، سیدھا اور مختصر جواب ہے کہ” کرپٹ، نا اہل قیادت اور خاندانی سیاست نے لنکا ڈھا دی “
سری لنکا سے موصول تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان کے پاس اب صرف ایمبولینس چلانے کیلئے پیٹرول رہ گیا ہے،2 روز قبل قوم سے خطاب میں سری لنکا کے وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے نے کہا تھا کہ” ملک میں صرف ایک دن کیلئے پیٹرول کا ذخیرہ ہے اور معیشت خطرناک صورتحال میں ہے۔ آنے والے مہینوں میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ضروری درآمدات کے لیے فوری طور پر 75 ملین ڈالرز کی ضرورت ہے۔ ملک میں 14 ضروری ادویات کی کمی ہے، ادویات کےلئے فوری ادائیگیاں کرنے کی ضرورت ہے اور سرکاری تنخواہوں، ضروری اشیا کی ادائیگی کےلئے پیسے چھاپنا جاری رکھنا ہے۔ سری لنکن ایئرلائنز کی نجکاری کرنے کی تجویز ہے“۔ وزیر اعظم وکرما سنگھے نے قوم کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ” اگلے کچھ مہینے مشکل ترین ہوں گے، قوم کو قربانیاں دینے اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔“
اب پارلیمینٹ میںبیان دیتے ہوئے لنکن وزیر برائے بجلی اور توانائی کا کہنا ہے کہ” پیٹرول کا بہت کم ذخیرہ موجود ہے جو ایمبولینس جیسی ضروری خدمات کےلئے جاری کیا جا رہا ہے۔ہمارے پاس پیٹرول شپمنٹس کی ادائیگی کیلئے ڈالرز نہیں ، کولمبو پورٹ پر پیٹرول شپمنٹ 28 مارچ سے موجود ہے۔حکومت پیٹرول حاصل کرنے کیلئے ادائیگی سے قاصر ہے، کریڈٹ لیٹرز کھولنے کیلئے ڈالرز کی قلت ہے، ہم فنڈز تلاش کرنے کےلئے کام کر رہے ہیں۔ کم از کم ہفتے کے آخر تک پیٹرول دستیاب نہیں ہوگا، شہری2 دن تک ایندھن کیلئے قطار نہ لگائیں۔“
آئیے اب بنگلہ دیش کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں وہاں سے بھی اچھی خبریں نہیں آ رہیں ، کہا جا رہا ہے کہ بنگلادیش پر بھی معاشی بحران کا سایہ منڈلا رہا ہے…؟ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے حکم جاری کیا ہے کہ”کوئی سرکاری اہلکا غیر ملکی دورہ نہیں کریگا جب تک کہ ضروری نہ ہو۔جب وقت مشکل ہوتا ہے تو حکومت کو سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں، یہ فیصلے دنیا کی مجموعی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کیے جا رہے ہیں“۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بنگلادیش بھی حالیہ دنوں معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے، کاروباری خسارے میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔بنگلہ دیش کی حکومت موجودہ عالمی صورتحال کے پیش نظر غیر ملکی زرمبادلہ کے انتظام کے بارے میں بہت زیادہ محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ مصطفیٰ کمال کے مطابق دنیا کو غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے اور حکومت اس وقت کوئی غیر ضروری زرمبادلہ خرچ نہیں کرنا چاہتی، لگڑری اشیاءکی درآمد کم کرنے کےلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔غیر ملکی زرمبادلہ کے بحران سے بچنے کےلئے متعدد منصوبوں کو 6 ماہ یا اس سے زیادہ کےلئے مو¿خر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ بنگلادیش میں برآمدات سے ہونے والی آمدنی نہیں بڑھ رہی جبکہ درآمدات پر ہونے والے خرچ میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
سری لنکا اور بنگلہ دیش کے بعد وطن عزیز کی معاشی صورتحال کا مختصراً جائزہ لیں تو مہنگائی اور ڈالر بے لگام ہو چکے ہیں.لگژری اور غیرضروری اشیاءکی درآمد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے . وزیراعظم نے درآمد ایکسپورٹ بل میں فرق کی وجہ سے پابندی عائد کی ہے۔ درآمد پر عائد پابندی والی اشیاءمیں لگژری گاڑیوں سمیت کاسمیٹکس کے سامان اور دیگر غیر ضروری اشیاءشامل ہیں۔ پابندی پر فوری عمل درآمد کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں. دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ غیر ضروری آئٹمز کی درآمد پر پابندی سے روپےکی قدر میں مزید کمی نہیں ہوگی۔جبکہ آج انٹر بینک میں ڈالر 199 روپے کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر آگیا ہے۔ انٹر بینک میں 3 روپے 26 پیسے اضافے سے 199 روپے کا ہوگیا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 200 سے بھی تجاوز کر گیا۔ آئی ایم ایف معاہدے سے متعلق بے یقینی اور ملکی معیشت کے بارے میں افواہوں کے نتیجے میں روپے پر دباﺅ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے سے متعلق منفی خبروں کے اثرات سے کرنسی مارکیٹ میں بھی بے چینی نظر آتی ہے۔ڈالر اور دیگر کرنسیوں کی طلب میں اضافے سے روپیہ دباﺅ کا شکار ہے….
سیاسی صورتحال بھی”دباﺅ “۔۔۔۔”مداخلت “اور” سازش “ کے بیانیے کا شکار ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری امریکہ کے دورے پر ہیں ، دوحہ میں پاکستان کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں جو اگلے ہفتے تک جاری رہ سکتے ہیں۔ مذاکرات کا یہ عمل ملک میں معاشی اصلاحات نہ ہونے کے خدشات کے باعث سست روی کا شکار ہے۔ مذاکرات کا اہم نکتہ پاکستانی حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر دی جانے والی بھاری سبسڈی ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ 6ارب ڈالرز کے بیل آو¿ٹ پیکیج پر سابق وزیر اعظم عمران خان نے سال 2019 میں دستخط کئے تھے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات سے سبسڈی کو ختم نہیں کیا تھا نہ ہی ریونیو اور ٹیکس محصولات میں اضافہ کیا۔اس پروگرام کے تحت پاکستان نے 3ارب ڈالر موصول کئے جس کا اختتام اس سال کے آخر میں ہونا ہے۔….
یہ ہے پاکستان کی صورتحال……. اور 3 ملکوں کی معیشت کی 3 کہانیاں ….
کیا اب پاکستان کی باری ہے …..؟
ایسا لگ رہا ہے کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں تو صرف ٹریلر چل رہا ہے ….اصل فلم تو پاکستان میں چلے گی
کاش یہ سب جھوٹ ہو ….تمام خدشات ، غلط ثابت ہوں …
معاشی بے چینی کسی صورت خطے کے مفاد میں نہیں ……..کروڑوں عوام سیاسی و معاشی ابتری کیخلاف ”غصے“ میںہیں، کہیںسڑکوںپر ہیں تو کہیں جلسے جلوسوں میں ہیں…..بات اس سے آگے بڑھی تو دور تک جائے گی ……جو کہ نہیں جانی چاہیئے …..کاش ” بگ باس“ یا ”رجیم چینجرز “ سمجھ سکیں ۔