اہم فیصلے شروع۔۔تحریر : طیبہ بخاری

اہم فیصلے شروع
تحریر : طیبہ بخاری
پی ٹی آئی کا لانگ مارچ ہو گیا …..روکنے والے روکتے رہے …..مارچ والے مارچ کرتے رہے
اس کے علاوہ بھی اور بہت کچھ ہوا …..کئی جانوں سے گئے …..کئی زخمی ہوئے …..کئی نظریات بدلے ….
کئی سوالات کے جوابات مل گئے اور کئی کے جواب چند دنوں تک خود بخود سامنے آ جائیں گے
محفوظ راستہ کس کو ملا ….کتنے دن کیلئے ملا …..؟ کس کے ذریعے ملا ….؟
حکومت کی حکمت عملی کامیاب رہی یا ”کھلاڑی “ نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا ….؟
کس سے ”مذاکرات “ ہوئے …..کس سے ”معاملات “ طے پائے …؟
ایک ہی دن میں ایسا کیا ہوا کہ قومی اسمبلی ” حرکت ” میں آ گئی ….؟
تو ایک ہی دن کا مختصراًجائزہ لیں توقومی اسمبلی میں احتساب بیورو آرڈیننس 1999میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا . ترامیم کے مطابق نیب گرفتار شدگان کو 24 گھنٹوں میں نیب کورٹ میں پیش کرنے پابند ہوگا، کیس دائر ہونے کے ساتھ ہی گرفتاری نہیں ہوسکے گی۔ نیب اب 6 ماہ کی حد کے اندر انکوئری کا آغاز کرنے کا پابند ہوگا، اس سے پہلے نیب 4 سال تک انکوائری شروع نہیں کرتا تھا. نیب انکوائری کے لیے وقت کی حد کا پابند نہیں تھا تاہم اب نیب گرفتار شدگان کو 24 گھنٹوں میں نیب کورٹ میںپیش کرنے پابند ہوگا۔ نیب گرفتاری سے پہلے کافی ثبوت کی دستیابی یقینی بنائے گا اور ریمانڈ 90 دن سے کم کرکے 14دن کردیا گیا۔بل کے مطابق وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے جبکہ چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا۔ چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کاچارج ملے گا اور مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا سکیم میں بے قاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی، کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا اور احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی، احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی۔
بل میں یہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 2 ماہ پہلے شروع کیا جائے گا، نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورت کا عمل 40 روز میں مکمل ہوگا، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائےگا، پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30 روز میں فائنل کرے گی جبکہ چیئرمین نیب کی 3 سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔ ……
اس کے علاوہ ایک اوراہم پیش رفت بھی ہوئی جس کا سیاسی فائدہ ہو گا یا نقصان…؟ اس کا جواب اگلے عام انتخابات تک مل جائے گا …..پیش رفت یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017ءمیں ترمیم کا بل بھی منظور کرلیا گیا ہے۔ یہاں ہم قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ گزشتہ برس نومبر میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے اعتراضات اور واک آؤٹ کے باوجود انتخابات میں رائے شماری کےلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے استعمال کا ترمیمی بل منظور کیا تھا۔اس بل کے تحت 2017ءکےالیکشن ایکٹ میں 2 ترامیم کی گئی تھیں جو کہ ووٹنگ کے لیے الیکٹرانک مشینوں کے استعمال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق تھیں۔بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن کے ارکان اسمبلی ایوان سے واک آؤٹ کر گئے تھے۔ …….اورآج پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ دینے سے متعلق سابق حکومت کی ترامیم ختم کر دی گئیں۔وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی احتساب آرڈیننس 1999ءمیں مزید ترمیم کا بل پیش کیا ۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہنا تھا کہ “ووٹنگ مشین کے ذریعے ملک بھر میں ایک ہی روز الیکشن کرانا ممکن نہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) پر مختلف جماعتوں کے تحفظات ہیں،سابقہ حکومت نے مشین پر فریقین کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ رولز بلڈوز کرتے ہوئے بل منظور کیا گیا تھا۔”…….
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ عام انتخابات جو 2023 کو ہونے ہیں ان کے اخراجات کی تفصیل بھی قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی ہے .الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2023 کی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے، وزارت پارلیمانی امور نے اخراجات کی تفصیل قومی اسمبلی میں پیش کر دی۔وزارت پارلیمانی امور کے تحریری جواب کے مطابق عام انتخابات 2023 میں 47ارب 41 کروڑ 73لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔ ٹریننگ ونگ کےلئے 1 ارب 79 کروڑ اور 90 لاکھ روپے خرچ ہوں گے جبکہ بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ کےلئے 4 ارب 83 کروڑ 55 لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔ انتخابی فہرستوں پر 27 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ ہوں گے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ پر 5 ارب 60 کروڑ 6 لاکھ روپےخرچ ہوں گے. انتخابات کیلئے آرمی کی خدمات اور سیکیورٹی پر 15ارب روپے خرچ ہوں گے۔
اس پیش رفت اور لانگ مارچ کے اعلان سے4 روز قبل الیکشن کمیشن نے غیرحتمی انتخابی فہرستوں کی اشاعت کےلئے ڈسپلے سینٹر قائم کر چکا ہے، ڈسپلے سینٹر 19جون تک کھلے رہیں گے۔ 28 مئی کو ابتدائی حلقہ بندیوں کی اشاعت کر دی جائے گی، ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات 29 مئی سے28جون تک جمع کرائے جا سکتے ہیں جبکہ 3 اگست کو ملک بھر میں حلقہ بندیوں کے کام کی تکمیل اور حتمی اشاعت ہو گی۔ نئی مردم شماری ہونے پر الیکشن کمیشن 2023 اکتوبر، نومبر میں عام انتخابات کرا سکے گا۔……..ان تمام معلومات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نئے انتخابات کیلئے “تیاریاں ” شروع ہو چکی ہیں صرف تاریخ کا اعلان باقی ہے چیئرمین تحریک انصاف جناح ایونیو اسلام آباد میں کارکنوں سے 30 منٹ کے خطاب میں واضح ”اعلان“ کر کے بنی گالہ جا چکے ہیں کہ ”حکومت نے6 روز میں الیکشن کا اعلان نہ کیا تو دوبارہ اسلام آباد آئیں گے.“ …….یہ اعلان ہے یا ڈیڈ لائن …..؟ اس کا کچھ کچھ جواب تو مل ہی چکا ہو گا کیونکہ اس خطاب کے بعد جو تبدیلیاں قومی اسمبلی کے اندر اور باہر آئیں وہ سب ہم مختصراً بیان کر چکے ہیں . لانگ مارچ جزوی ختم ہوا ہے ……دھرنے کا ڈر بھی جزوی ختم ہوا ہے …….پی ٹی آئی انتخابی اصلاحات اور دیگر معاملات پر بات کرنے کیلئے آمادگی ظاہر کر رہی ہے ، پرویز خٹک نے کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات اور دیگر معاملات پر بات ہوسکتی ہے۔……شہباز حکومت کو کسی نہ کسی صورت بات چیت تو کرنی پڑے گی تو پھر فتح کا جشن کیسا …..؟ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو تحریک انصاف کے ” رابطوں“ کی جو تفصیلات سوشل میڈیا اور نیوز ویب سائیٹس پر سامنے آئی ہیں ان میں “سمجھنے ” کیلئے بہت کچھ ہے ….۔پی ٹی آئی کے حکومت اور اداروں سے رابطوں کے دوران کون کس سے رابطے میں رہا اور کس نے کس سے ملاقاتیں کیں؟ اس میں اسد قیصر، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور پرویز خٹک ،احسن اقبال، سردار ایاز صادق، اسعد محمود، فیصل سبزواری اور ملک احمد خان کے نام لئے جا رہے ہیں۔ …….کس کو فیس سیونگ ملے گی کس کو نہیں ….اصل فیصلہ توعوام کریں گے اور جلد کریں گے . سیاستدان جو کچھ ایک دوسرے کیساتھ کر رہے ہیں یہ کھیل بھی منطقی انجام کو پہنچے گا ، کیونکہ فیصلے کرنے کا وقت قریب سے قریب تک آتا جا رہا ہے اور”اہم فیصلے “ہو کر رہیں گے . …
سیاسی مبصرین اوور سیز پاکستانیوں کے ووٹ کا حق ختم ہونے کو ظلم قراردیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آج قومی اسمبلی پاکستان میں (ن )لیگ اور پی پی پی نے ظلم کیا، بیرون ملک عزیز ترین پاکستانیوں کا ووٹنگ کا حق چھین لیا ، یہ پاکستانی اپنے خون پسینےکی کمائی سے سالانہ 30 ارب ڈالرز بھیجتے ہیں تو ہمارا خزانہ چلتا ہے اوراسی وجہ سے ہم آج تک کنگال نہیں ہوئے۔…….
فیصلہ اب اوورسیز پاکستانی بھی کریں گے ……ان کے فیصلوں سے کون کون کنگلہ ہو گا …..اس کیلیے الیکشن تک انتظار کرنا نہیں پڑے گا فیصلے کل سے ہی آنا شروع ہو جائیں گے اور آئندہ انتخابات تک آتے رہیں گے…..