گرینڈڈائیلاگ ، ریڈلائن اور قراردادیں۔۔تحریر :طیبہ بخاری

تحریر :طیبہ بخاری
تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی میں اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر اصولی موقف اپناتے ہوئے مستعفی ہونے کا جو اعلان کیا تھا، اس پر عمل کر دکھایا اور استعفوں کی تصدیق کا ”پہلا راؤنڈ “ اپنے نام کیا اور ثابت کیا کہ ابھی اس کے پاؤں اکھڑے نہیں . شہباز حکومت نے استعفوں کے معاملے جو حکمت عملی اپنائی تھی وہ دھری کی دھری رہ گئی ،آج پی ٹی آئی کا کوئی رکن استعفوں کی تصدیق کےلئے اسمبلی نہیں آیا۔سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے ہر رکن قومی اسمبلی سے استعفے کی تصدیق کےلئے 5 منٹ مقرر کر رکھے تھے۔ سپیکر نے تصدیق کےلئے پی ٹی آئی کے 30 ارکان کو آج بلایا ہوا تھا، لیکن آج کوئی ممبر پارلیمنٹ نہیں آیا۔ پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کی تصدیق کےلئے سپیکر نے 10 جون کی ڈیڈلائن مقرر کر رکھی ہے۔ مقررہ وقت کے بعد سپیکر قومی اسمبلی استعفوں سے متعلق اپنا فیصلہ کریں گے۔….دوسری جانب چیئرمین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی (پی اے سی) نور عالم خان نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کی تصدیق کے معاملے پرسپیکر آفس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ” عمران خان نے اپنے ایم این ایز کو خط لکھا ہے کہ استعفوں کی تصدیق کےلئے سپیکر آفس نہیں جانا ہے۔ قانون کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی نے ہر ممبر سے پوچھنا ہے، زبردستی کے استعفے قبول نہیں ہوتے۔ اس وقت کے ڈپٹی سپیکر نے استعفے قبول کیے، استعفے منظور کرنا سپیکر کا کام ہوتا ہے۔ بعض اوقات پارٹی سربراہان سخت فیصلے کرتے ہے، جس نے استعفیٰ دیا آکر تصدیق کردے، اس میں کوئی شرم والی بات نہیں۔ مستعفی ممبران کومہنگائی اور لوڈشیڈنگ کےخلاف پارلیمان میں آواز بلند کرنی چاہیے، مہنگائی، کرپشن اور لوڈشیڈنگ کے خلاف بھرپور آواز اٹھاؤں گا۔“
ایک طرف ملک میں جہاں استعفوں کی تصدیق کا معاملہ موضوع بحث رہا وہیں دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں جمع کرائی گئی ایک قرار داد کو بھی خاص نقطہ نظر سے دیکھا گیا . یہ قرار داد کیا ہے اور کس کی جانب سے اور کس کیخلاف پیش کی گئی سب اہمیت کے حامل ہیں اوراس پر خوب سیاست ہونیوالی ہے .دراصل تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سربراہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے کرپشن سکینڈلز قومی احتساب بیورو (نیب) بھیجنے کی قرار داد پنجاب اسمبلی میں جمع کرادی گئی ہے۔مسلم لیگ (ن) کی رکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی قرارداد میں وفاق سے بشریٰ بی بی کے کرپشن کیسز نیب کو بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا۔قرار داد متن میں کہا گیا کہ بشریٰ بی بی نے خاتون اوّل ہونے کا ناجائز استعمال کیا ، ان کے کرپشن سکینڈلز کا کیس فوری طور پرنیب کو بھیجا جائے۔ نیب کیسز کی انکوائری تیز کرے اور بشریٰ بی بی اور عمران خان کو انکوائری کے لیے طلب کرے۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ایٹمی پروگرام اور پاک فوج سے متعلق انٹرویو کے خلاف قرارداد پیش کردی گئی۔وفاقی وزیر سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف قرار داد پیش کی۔قرارداد میں کہا گیا کہ پاک فوج کی دفاع کے لیے ناقابل تسخیر خدمات ہیں، یہ ایوان پی ٹی آئی کے چیئرمین کے انٹرویو اورالفاظ کی شدید مذمت کرتا ہے۔قرارداد میں مزید کہا گیا کہ سابق وزیراعظم نے کہا اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہ کیے تو پاکستان 3 ٹکڑے ہوجائے گا، یہ ایوان عمران نیازی کے بیان کی مذمت کرتا ہے۔قرارداد کے متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف عظیم قربانیاں دیں، یہ ایوان انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ ریاست سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔اس دوران سردار ایاز صادق نے کہا کہ” پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار جانوں کا نذرانہ پیش کیا، عمران خان کا اقتدار کیا گیا یہ ہر روز نئی بات کرتے ہیں۔معلوم نہیں عمران خان نے دنیا میں کس کس کو راز دےدئیے ہوں گے، لگتا ہے جو پاکستان کے خلاف نقشے بنائے گئے اس میں بھی یہ شامل تھے۔ عمران خان نے پاکستان کے 3 ٹکڑوں کی بات کرکے اس کی تائید کی ہے۔“
ایک طرف حکومت کی جانب سے گرینڈ ڈائیلاگ کی باتیں کی جا رہی ہیں اور دوسری جانب اسمبلیوں میں قراردادیں پیش کی جا رہی ہیں ….صاف ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں قراردادوں والے معاملے پر خاموش نہیں رہے گی، کپتان کی گرفتاری کا معاملہ بھی ابھی پوری طرح ٹھنڈا نہیں ہوا. پی ٹی آئی گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز یہ کہہ کر مسترد کرچکی ہے کہ وزیراعظم نے گرینڈ ڈائیلاگ کا شوشہ چھوڑا ہے۔ وسیع البنیاد مذاکرات کا شوشہ حکومتی ناکامی اور 50 روز میں پھیلائی گئی معاشی تباہی کا اعتراف ہے۔حکومت نے 8 ہفتوں میں ہی ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے معاملے پر پی ٹی آئی نے سخت اورواضح موقف اپنا رکھا ہے اور اس معاملے کو اپنے لیے ” ریڈ لائن “ قرار دیدیا ہے،پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں شاہ محمود قریشی کہہ چکے ہیں کہ” وفاقی وزیر داخلہ راناثناءاللہ عمران خان کو گرفتار کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگر ایسی کوئی حماقت کی گئی تو پی ٹی آئی کی جانب سے شدید ردِعمل آئے گا۔ آئی ایم ایف کے دباﺅ کے باوجود پی ٹی آئی حکومت نے نرخ کم رکھے، حکومت کے معاشی ماہرین کے پاس مشکلات کا کوئی حل نہیں، یہ عالمی ادارے کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتے۔یہ اتنے لاچار کیوں ہیں؟ اگر ان کو ہمارا کیا ہوا معاہدہ اچھا نہیں لگا تو ڈٹ جاتے، آئی ایم ایف سے بات کرتے کہ ہم یہ معاہدہ نہیں کریں گے۔حکومتی اقدامات کے باعث 10 جون کو بجٹ سے پہلے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا. پنجاب میں 20 ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی بھرپور حصہ لے گی، حکومت پنجاب پولیس اور انتظامیہ کو استعمال کر کے من پسند نتائج لینا چاہتی ہے۔ شفاف الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، پنجاب حکومت ضمنی الیکشن میں دھاندلی کا منصوبہ بنا چکی ہے، اگلے الیکشن کے من پسند نتائج حاصل کرنے کےلئے حلقوں کو توڑا گیا، نئی حلقہ بندیوں کو چیلنج کریں گے۔ نیب قوانین میں ترامیم این آر او ٹو ہے، یہ خاص ایلیٹ طبقے کو ایک طرف دھکیلنے اور مٹی ڈالنے کی کوشش ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے ایک ایم این اے عطاءاللہ ایڈووکیٹ نے حکومت کو خودکش حملے کی دھمکی دیدی ہے، عطاءاللہ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ ” ملک چلانے والے سن لیں، عمران خان کے ایک بال کو بھی نقصان پہنچا تو نا صرف وہ بلکہ ہزاروں اور بھی خودکش تیار ہیں۔ اگر عمران خان کو کچھ ہوا تو میں خودکش حملہ کروں گا، اس طرح اور بھی ہزاروں خودکش تیار ہیں“۔
یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ عطاءاللہ سندھ ہاؤس حملہ کیس میں گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔…نیب کارروائیوں اور دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ، الیکشن سیزن بھی شروع ہونیوالا ہے ، پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں قوم 5 لاشیں دیکھ چکی ہے سیاسی نفرتیں اسی رفتار سے بڑھتی رہیں تو ناجانے اور کیا کیا دیکھنا پڑے