حکومت پر اتفاق، فوج پر اختلاف ۔۔۔تزئین اختر

رائے عامہ – تزئین اختر
-tazeen303@gmail.com
اب یہ کوئی خبر نہیں رہ گئی کہ عمران کا جلسہ بہت بڑا تھا ،اب اہم یہ ہے کہ جلوس نکلتے کتنی دیر لگتی ہے- اس لیے گجرات کا جلسہ کتنا بڑا تھا اس پر بات کرنا ہمارا مقصد نہیں ۔ پی ٹی آئی کے کارکنان کا دعویٰ ہے کہ یہ گجرات کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ہم انہیں یاد دلاتے ہیں کہ گجرات وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی کا آبائی شہر ہے۔ یہاں ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب صوبائی مشینری اور وسائل پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے ایک بڑا ہجوم اکٹھا کر سکتے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب اپنے ہی آبائی شہر کی تاریخ میں کسی اور پارٹی کا سب سے بڑا جلسہ ہضم کرسکیں گے چاہے وہ اتحادی جماعت ہی کیوں نہ ہو؟
سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور سیاست دیکھ رہی ہے کہ گجرات کے چوہدری شہر اور ضلع میں تقسیم ہو گئےاپنی طاقت کھودی جبکہ پی ٹی آئی چوہدریوں کے دیرینہ گڑھ میں زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ یہ جذب کرنا آسان نہیں ہے۔ ناممکن کہنا چاہئے اور جن لوگوں کی آنکھیں اور دماغ ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہاں کیا بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گجرات کا جلسہ یقیناً کامیاب رہا اور اس کا کریڈٹ صرف پنجاب حکومت کو نہیں جاتا بلکہ پی ٹی آئی کے مقامی منتظمین نے بھی اپنے قائد کا شاندار استقبال کرنے کے لیے بھرپور محنت کی۔ ہم یہ ضرور ذکر کریں گے کہ ہمارے آبائی شہر جلال پور جٹاں سے کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ انہیں دو نوجوان بھائیوں میر بابر ظہیر اور میر عامر ظہیر نے اکٹھا کیا اور متحرک کیا جنہیں ہم نے گزشتہ کئی سال سے عمران کے لیے بے لوث کام کرتے دیکھا ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے شہر کو ابھی کچھ اور بھی کرنا ہے تاکہ اسے اہم سٹیشن کے طور پر جانا جائے۔ ہمارے جلال پور جٹاں سے عمران کے جلسے میں ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی لیکن پی ٹی آئی جلال پور جٹاں کا کوئی رہنما سٹیج پر یا اس کے آس پاس بھی نظر نہیں آیا۔نہ ہی کسی کو اسٹیج سے چند الفاظ کہنے کی دعوت دی گئی۔ہمارے شہر کو اپنی قیادت ابھارنا چاہیے۔
پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی مکمل حمایت کے ساتھ وزیراعلیٰ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں پی ڈی ایم نے متفقہ طور پر وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔ پرویز الٰہی اسے بھول سکتے ہیں لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ وہ کبھی وہ الفاظ بھول پائیں گے جو عمران چند سال پہلے عوامی جلسوں میں ان کے بارے میں کہتے تھے۔ ہوسکتا ہے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو یاد نہ ہو لیکن مسلم لیگ ق کے قائدین کو یاد ہے۔
ہمارے سیاسی کارکنوں کی اکثریت کی یادداشت بہت کم ہے لیکن کوئی حرج نہیں، ہم انہیں صرف دو ہفتے گزرے واقعات یاد کرواتے ہیں۔ جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے چیف آف سٹاف شہباز گل نے پاک فوج کے نچلے رینک کو سینئرز کی نافرمانی پر اکسایا۔ ہر کسی کو لات مارنا آپ کا مشغلہ یا عادت ہو سکتی ہے لیکن بعض اوقات یہ نقصان پہنچا سکتا ہے جو آپ برداشت نہیں کر سکتے۔ شہباز گل نے سب کو لات مارنے کی عادت میں آخر کار بم کو لات مار دی۔ جب پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکن اے آر وائی ٹی وی پر شہباز کے انتہائی قابل اعتراض ریمارکس کی حمایت کر رہے تھے تو ہم نے نوٹ کیا کہ شہباز گل کے حق میں اپنے ہی وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے صرف ایک جملہ لے آئیں۔ہمیں یہ نوٹ کرنے کے چند گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ پرویز الٰہی نے گل کے ریمارکس کی مذمت کی اور انہیں اپنے الفاظ پر معافی مانگنے کا مشورہ دیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گل عمران خان کی مرضی یا ہدایت کے بغیر یہ ریمارکس کبھی نہ دیتا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرویز الٰہی اور عمران خان عسکری قیادت کے بارے میں بالکل مختلف بلکہ مخالف ذہنیت رکھتے ہیں۔ اگر دوسرے تضادات اس سیاسی معاہدے کو نہیں توڑ سکتے تو بھی صرف ہماری فوجی قیادت پر اختلاف رائے ہی راستے جدا کرنے کے لیے کافی ہے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب پرویز الٰہی سٹیج پر ہوتے ہیں تو عمران خان فوجی قیادت کو چیلنج نہیں کرتے۔ ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پرویز الٰہی نے عمران کو آگاہ کیا ہے کہ جب مشترکہ جلسے ہوں گے تو فوجی قیادت پر کبھی تنقید نہیں کی جائے گی۔
جب جنرل شجاع پاشا ڈی جی آئی ایس آئی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف تھے تو پی ٹی آئی پی ایم ایل کیو کے اہم ارکان کو توڑ رہی تھی۔ پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین نے آرمی چیف سے عمران خان کے خلاف شکایت کی۔ جنرل کیانی نے جواب دیا کہ میں جنرل پاشا سے آپ کی ملاقات کا بندوبست کرتا ہوں۔ دونوں چوہدریوں نے ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کی اور انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ جنرل پاشا نے پی ٹی آئی کے لیے پی ایم ایل کیو کے لوگوں کو توڑنے میں ملوث ہونے کی تردید کی۔ لیکن چند منٹوں میں خود ہی بے نقاب ہو گئے۔ چوہدری تو دائمی سیاست دان تھے اور جنرل پاشا یس سر نو سر سے زیادہ نہیں تھے۔ اسی ملاقات میں چوہدریوں نے ملک کے سیاسی منظر نامے پر گفتگو کی اور پی ٹی آئی کی حیرت انگیز طور پر تیزی سے بڑھتی مقبولیت پر سوال اٹھایا کہ عمران خان کا منشور کیا ہے؟ اور اس طرح انہوں نے جنرل کو پکڑ لیا۔ کیوں کہ اس پر جنرل پاشا پیشکش کئیے بغیر نہ رہ سکے کہ کیا میں آپ کی عمران سے ملاقات کا بندوبست کروں؟
بات یہ ہے کہ پرویز الٰہی عثمان بزدار نہیں اور یہ عمران خان کے لیے قابل قبول نہیں۔ جب پرویز الٰہی اپنی کابینہ کا انتخاب کرنے والے تھے تو عمران خان نے اسی طرح ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کی جیسا کہ وہ عثمان بزدار کے ساتھ کر رہے تھے لیکن پرویز الٰہی نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا۔ اسی طرح عمران خان اب اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب کو فون کر کے انہیں ہر تین چار ماہ بعد انسپکٹر جنرل اور چیف سیکرٹری کو تبدیل کرنے کی ہدایت کریں جیسا کہ عثمان بزدار کے وقت عمران کی عادت تھی۔
تضادات دونوں طرف موجود تھے اور برقرار ہیں۔ یہ سہولت کی شادی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ یہ کب تک چلتی ہے۔ عمران خان پرویز الٰہی سے راضی نہیں ہیں اور پرویز الٰہی گجرات میں پی ٹی آئی کی بڑھتی مقبولیت پر بے چین ہیں جو جلد ہی مسلم لیگ ق کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔آپ بہت بڑا جلسے کر سکتے ہیں، یہ خبر نہیں ہے، اہم یہ ہے کہ دو مخالف کب تک خود کو اتحادی بنا کر پیش کر سکتے ہیں؟چنگاری موجود ہو تو آگ لگنا اور سب کچھ جل کر بھسم ہو جانا مشکل نہیں ہوتا, ہم ایک بات جانتے ہیں کہ ایسے اتحادوں کا جلوس نکلتے دیر نہیں لگتی-آپ میں حکومت رکھنے پر اتفاق ہے لیکن فوج کے احترام پر آپ میں اختلاف ہے – ایسے میں آپ کب تک ساتھ چل سکتے ہیں؟ اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ۔