راجہ لیاقت
آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب پر قتل کے الزامات لگانے پر اب عمران خان کو ثبوت دینا ہوں گے۔ بصورت دیگر نتائج کا سامنا کرنا ہوگا اور یقینا نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ ”اوئے آئی جی“ سے شروع ہونے والا عمران خان کا پولیس کے خلاف اعلان جنگ، امریکی مداخلت، آرمی چیف،آئی ایس چیف، آصف زرداری اور پتا نہیں کہاں کہاں سے ہوتا ہوا اب دو آئی جیز تک آن پہنچا ہے کہ یہ دونوں انہیں قتل کرانے کی مکمل منصوبہ بندی کر چکے ہیں جو نقشہ انہوں نے اپنے قتل کے منصوبے کا پیش کیا ہے اس کے بعد میرے ذاتی خیال میں عمران خان کا ذہنی اور نفسیاتی علاج ضروری ہوگیا ہے۔ مسلسل دس مہینوں سے وہ ایک ہیجان میں مبتلا ہیں، انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ ان کے خلاف سازش کر کے انہیں اقتدار سے نکالا گیا اور اب ان کے خلاف مقدمات کی لمبی فہرست یہ ثابت کرتی ہے کہ کم سے کم اگلے جنرل الیکشن میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور یہ تلخ حقیقت ان پر ذہنی دباؤ بڑھانے کا اصل سبب بنی ہے کہ وہ جنرل باجوہ جو انہیں تمام وسائل استعمال کر کے اقتدار میں لائے تھے۔ وہی ان کے گوڈوں میں بیٹھ گئے۔عمران خان کو اپنے ”استعمال“ ہونے کا غم ہے یا ذہنی ٹارچر۔ کہ آج وہ عدالت میں پیش ہوتے ہوئے اپنے اردگرد بلٹ پروف شیلڈز لگا کر خود کو پوری دنیا میں تماشا بنا رہے ہیں۔ ان کے وہ دعوے کہ میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ یہ چور، ڈاکو، لٹیرے بزدل ہیں۔ میں جیل جاؤں گا، میں مر جاؤں گا مگر ان چوروں کے آگے سر نیچا نہیں کروں گا۔ آج پنی مضحکہ خیز اور ناقابل یقین احمقانہ اقدامات کی وجہ سے لاہور زمان پارک کے ایک گھر میں ”قیدی“ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ رانا ثناء اللہ اور مریم اورنگزیب سمیت تمام مخالفین ان کا مذاق اُڑا رہے ہیں کہ وہ ایک چوہے کی طرح ایک بل میں چھپ کر بیٹھ گئے ہیں۔ نواز شریف اور عمران خان میں کیا فرق رہ گیا ہے۔ وہ بھی دعوے کرتے رہے کہ ان کا جینا مرنا صرف پاکستان اور پاکستانی قوم کے لئے ہے لیکن جب بھی ان پر برا وقت آیا، وہ پاکستان اور عوام کو تنہا چھوڑ کر کبھی لندن اور کبھی جدہ جا بیٹھے۔ آج عمران خان گرفتاری کے خوف سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ انہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ انہیں گرفتار کر کے، ان کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو شہبازگل یا اعظم سواتی کے ساتھ ہوا تھا۔ مریم نواز نے تو اخلاقیات کا جنازہ نکالتے ہوئے اب عمران خان پر ایسے بے ہودہ الزامات لگانے شروع کر دئیے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ذاتی انتقام پر اُتری ہوئی کوئی عام عورت ہیں۔ نشئی، منشیات کا عادی، بدکردار جیسے الفاظ۔ نواز شریف کی بیٹی کے منہ سے سن کر یقینا لاکھوں پاکستانی خواتین کا سرشرم سے جھک جاتا ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ نوازشریف فیملی بشمول مریم نواز کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت کے دوران ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ انہیں جیلوں میں ڈالا گیا۔ ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ انہیں عدالتوں میں گھسیٹا گیا لیکن یہ خود نوازشریف تسلیم کرتے رہے ہیں کہ ”اصل“ کردار کون تھے اور یہ کہ عمران خان تو صرف ایک ریموٹ ہے۔لیکن آج مریم نواز جنرل فیض کا تو نام لیکر گالیاں تک دیتی ہیں۔ جنرل فیض کے ساتھ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تصاویر لگا لگا کر جلسوں میں انتہائی حد تک کے الزامات لگاتی ہیں لیکن جنرل باجوہ کا ذکر کرنا بھی انہیں بھول گیا ہے جن پر الزام لگایا جاتا رہا کہ وہ 2018ء کے انتخابات کو رگ کر کے عمران خان کو اقتدار میں لائے تھے۔ آج تمام حکومتی جماعتوں کا واحد ٹارگٹ عمران خان ہے لیکن یہ عمران خان کے ساتھ ہونا ہی چاہیے تھا۔ اگر ساڑھے تین سالوں میں انہوں نے چور چور، ڈاکو ڈاکو کرنے کے بجائے کوئی ایسے کام کئے ہوتے جس سے اس ملک اور عوام کو ریلیف ملتا۔ اپنے دعوؤں کے مطابق پولیس میں ہی اصلاحات کر دی ہوتیں تو آج انہیں 23 کروڑ کے مالک میں ایک گھر کے اندر چھپ کر نہ رہتا پڑتا۔ سیاست کے میدان میں مقابلہ بھی ”سیاست“ سے کرنا پڑتا ہے۔ حماقت سے نہیں۔ حماقتوں کا سلسلہ قومی اسمبلی سے استعفوں سے شروع ہوا تھا۔ اگر قومی اسمبلی میں موجود رہتے تو کیا آج راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر ہوتا؟ اور کیا پی ڈی ایم اتنی آسانی سے نیب ترامیم کر کے اپنے مقدمات ختم کرالیتی۔ کیا قومی اسمبلی میں ان کا جینا حرام نہ ہو جاتا۔ اور کیا پولیس اعظم سواتی، شہباز گل سمیت ان کے کارکنوں پر تشدد کرتی۔ انہیں جیلوں میں ڈالا جاتا؟ اس سے بڑی حماقت کے پی کے اور پنجاب حکومت ختم کر کے کی گئی بلکہ اپنے پاؤں کے بجائے کلہاڑا اپنے سر میں دے مارا۔ اگر پنجاب اور کے پی کے حکومت نہ توڑی ہوتی تو کیا اسلام آباد پولیس اسلام آباد سے لاہور جا کر عمران خان کے گھر پر دھاوا بولنے کی ہمت کرتی؟ کیا علی امین گنڈاپور پر کے پی کے میں دہشتگردی کے مقدمے بنتے؟ اور کیا آئی جی پنجاب عمران خان کی غیر موجودگی میں کرینوں سے عمران خان کے گھر کی توڑ پھوڑ کا تصور بھی کرسکتا تھا؟ پرویزالٰہی اور بعض دیگر راہنما پنجاب اور کے پی کے حکومت توڑنے کے حق میں نہیں تھے۔ اس میں مان لیتے ہیں کہ ان کے اپنے مفادت بھی ہوں گے۔لیکن یہ وہ سیاسی حماقت تھی جس کا خمیازہ عمران خان سمیت تمام پی ٹی آئی کے راہنما اور ورکرز بھگت رہے ہیں اور کتنی دیر تک ورکرز آنسو گیس اور تشدد کا سامنا کریں گے؟ آپ خود تو جیل بھرو تحریک سے جان چھڑا گئے لیکن ہزاروں کارکن آج بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ان تمام حماقتوں سے بڑھ کر فوج کے ساتھ براہ راست سینگ پھنسانا کپتان کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ بھٹو سے لیکر جونیجو تک اور نوازشریف سے عمران خان تک جس نے بھی ”سچ مچ“ کا وزیراعظم بننے کی حماقت کی ان سب کا انجام سب کے سامنے ہے۔ کون سا آئین اور کون سا قانون۔ بھینس اس کی ہے جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے اور ڈنڈا جن کے پاس ہے وہ بڑے بڑے طرم خانوں کو بھینس بنا کر رکھنے کا فن اچھی طرح جانتے ہیں۔ بزدلوں کی طرح بلٹ پروف شیلڈز میں باہر نکل کر تماشا بننے سے بہتر ہے کہ کھل کر عدالتوں میں پیش ہوں۔ ویسے بھی آپ کا ایک وزیرداخلہ آفریدی کے بقول جان تو اللہ کو دینی ہے۔ پھر ڈر کیسا؟