”چیف“ کی ”سیاسی اکھاڑے“ میں انٹری۔۔۔۔راجہ لیاقت

راجہ لیاقت

فائز عیسیٰ ابھی جسٹس ہیں۔ چند ماہ بعد”چیف“ ہوجائیں گے۔ میرے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ”چیف“ کی بڑی آن بان اور شان ہوتی ہے اور اس وقت پی ڈی ایم مستقبل کے اس چیف کی تعریفوں کے پل باندھ رہی ہے اور انہی تعریفوں سے متاثر ہو کر قاضی فائز عیسیٰ بھی اپریل کو ”آئین کی گولڈن جوبلی“ منانے کے لئے تن تنہا پارلیمنٹ میں جاپہنچے اور یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں میرے خیال میں پہلی بار ہوا ہے کہ وہ متوقع چیف جسٹس اس ”پی ڈی ایم“ کی پارلیمنٹ میں گئے جس نے ٹھیک اسی دن۔ یعنی دس اپریل کو موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے ایک حکم کو ہوا میں اڑا دیا۔ چند ماہ بعد بننے والے چیف کے سامنے شہباز شریف، آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے موجودہ چیف اور یقینا آنے والے چیف فائز عیسیٰ نے بھی چیف عمر عطا بندیال کے خلاف پوری ”دیانتداری“ سے بھڑاس نکالی اور چند ماہ بعد کے چیف جسٹس نے اپنے موجودہ چیف جسٹس کے خلاف ہونے والی یہ تقاریر بڑی خندہ پیشانی سے سنیں (بڑے حوصلے کی بات ہے) سنا ہے کہ اس گولڈن جوبلی کے موقعے پر تمام جسٹس صاحبان کو بلوایا گیا تھا لیکن صرف مستقبل کے چیف جسٹس نے اس محفل کو رونق بخشی اور مستقبل کے چیف نے کہا کہ باقی ججز ”شاید“ مصروف تھے، اس لئے نہیں آسکے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں جو میرے خیال میں پوری طرح ایک ”کنفیوژ“ تقریر تھی اپنے والد بزرگوار کی خوبیاں گنوائیں۔ اپنی چچی محترمہ کے بارے میں بتایا کہ 1973ء کے آئین کو بنانے والی ٹیم میں وہ بھی ایک ممبر تھیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ جب ہاتھ میں ”آئین کی کتاب“ لیکر یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس کے محافظ ہیں بالکل ایسے ہی جیسے آپ سب (پارلیمنٹیرین) ٹھیک اسی وقت ان کے دائیں، بائیں بیٹھے آصف زرداری، اسحاق ڈار، شہباز شریف تالیاں بجا رہے تھے (میں نے بلاول کو تالیاں بجاتے نہیں دیکھا) جن تین لوگوں کا میں نے نام لیا ہے ان میں ایک موجودہ وزیراعظم جو ضمانت پر ہیں۔ ایک سابق صدر پاکستان آصف زرداری جن پر موجودہ وزیراعظم کے بھائی نے اربوں کھربوں کی کرپشن کے مقدمات بنائے تھے اور موجودہ وزیراعظم نے اس سابق صدر کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا ”حلف“ اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ اگر میں ایسا نہ کرسکا تو میرا نام بدل دینا۔(انہوں نے اپنے کپڑے بیچ کر پاکستانی قوم کو آٹا اور روٹی دینے کا بھی دعویٰ کیا تھا) اور اسحاق ڈار کی تو بات ہی کیا کریں وہ قانون اور آئین کو جیب میں ڈال کر پی ٹی آئی کی حکومت میں لندن تشریف لے گئے۔ مبینہ طور پر کرپشن کے مال سے مزے کئے اور اس وقت تک کوئی بھی عدالت، بشمول فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ اسحاق ڈار کو درجنوں مقدمات کے باوجود واپس نہ بلاسکی۔ جب تک کہ ”حالات“ ٹھیک نہیں ہوگئے اور پھر اسحاق ڈار اس آئین اور قانون کو گود میں لیکر پاکستان آ گئے اور اب وہ وزیر خزانہ ہیں۔ اس خزانے کے وزیر ہیں جس سے ہر مہینے جسٹس فائز عیسیٰ کو تنخواہ ملتی ہے۔ یہ تینوں جسٹس فائز عیسیٰ کی باتوں پر تالیاں بجا رہے تھے اور کیوں نہ بجاتے۔ یہ تینوں اور ان تینوں کے اس وقت سے جسٹس فائز عیسیٰ کو پلکوں پر بٹھا رہے تھے جب سے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ایک طرح سے ”بغاوت“ کر رکھی ہے۔ مطلب اس آئین کی گولڈن جو بلی منائی گئی جس کو پی ڈی ایم نے ماننے سے صاف انکار کررکھا ہے۔ انہیں لگ رہا ہے کہ اگر آئین کو دیکھا عمل کیا اور نوے دن کے اندر الیکشن کرادئیے تو یہ ان کی سیاسی خودکشی ہوگی۔
اس لئے حکومت جو اس وقت درجن بھر سیاسی ٹولوں کا ایک مجموعہ ہے۔ آئین کو ایک طرف رکھ کر، خودکشی سے بچنے کے لئے ہر وہ کام کر رہے ہیں جو انہیں اقتدار میں رکھ سکے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی تقریر میں اپنے حلف کی بات کی اور ساتھ ہی پارلیمنٹ کے ممبرز کے حلف کی بھی۔ کہ ہم سب نے حلف اٹھایا ہے۔ عوام اور ملک کی بھلائی اور بہتری کے لئے تمام تر وسائل کو بروئے کار لائے جائیں گے۔ کاش فائز عیسیٰ اپنے ہاتھ میں وہی آئین کی کتاب لیکر حلف دے دیتے کہ وہ آج تک جو کچھ ہو رہا ہے اس پر دل سے مطمئن ہیں اور یہ کہ وہ آج موجودہ حکومت کی طرف سے ”عوامی بھلائی“ سے بھی مطمئن ہیں لیکن ایسا کرنے کے لئے اندر کے ضمیر کو زندہ کرنا پڑتا ہے۔ جب سے آئین وجود میں آیا۔ مطلب 1973ء سے اب تک۔ کیا اس آئین کی پاسداری کی گئی؟ مارشل لاؤں کو یہی حلف اٹھانے والے جسٹس صاحبان نظریہ ضرورت کے انجکشن لگاتے رہے۔ ضیاء الحق سے مشرف تک اور نواز شریف سے عمران خان تک سب آئین گلی ڈنڈا بنا کر کھیلتے رہے لیکن آئین کے رکھوالے اس گلی ڈنڈے کے کھیل میں فیلڈنگ کرتے نظر آئے۔ آئین کا تحفظ کرنے کی جرأت کسی نے نہیں کی۔ جسٹس فائز عیسیٰ کو میرے خیال میں اس گولڈن جوبلی میں نہیں جانا چاہیے تھا۔ ایک ایسے خاص وقت میں جب پورے ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ مستقبل کے اس چیف جسٹس کا جھکاؤ مکمل طور پر موجودہ سیٹ اپ کی طرف ہے اور انہوں نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف ایک محاذ بنا رکھا ہے۔”نوٹس“ لکھ لکھ کر میڈیا میں بھیجے جا رہے ہیں اور ”سہولت کاری“ کا پورا پورا بندوبست کرنے کا خیال رکھا جارہا ہے۔ مستقبل کے چیف جسٹس نے جب اسپیکر راجہ پرویز اشرف کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ 2011ء سے آج کے پڑوسی چلے آرہے ہیں۔ تو سچی میں میرا ”ہاسا“ نکل گیا کہ اللہ تعالیٰ واقعی مہربان ہے۔ راجہ پرویز اشرف کو ایک وقت میں ”راجہ رینٹل“ کا خطاب ملا تھا پھر اللہ نے انہیں وزیراعظم بنا دیا (آصف زرداری تو بس ایک ”سبب“ بن گئے تھے) راجہ پرویز اشرف عدالتوں میں دھکے کھاتے تھے) راجہ پرویز اشرف عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے اور طلباء لمبا عرصہ خوار ہوتے رہے لیکن آج پاکستان کے مستقبل کے چیف جسٹس ان کے سامنے باادب کھڑے ہو کر انہیں بتا رہے تھے کہ وہ2014ء سے ان کے پڑوسی ہیں اور راجہ پرویز اشرف سامنے کھڑے مستقبل کے چیف کے سامنے بہت اونچی جگہ لگی کرسی پر بیٹھ کرمسکرا رہے تھے کہ کل تک وہ سول وسیشن ججز کی عدالتوں میں، ججز کے سامنے ”ملزم“ کی حیثیت سے پیش ہوتے تھے اور ٓج مستقبل کا پکا چیف ان کے سامنے۔ ان کی کرسی کے آگے ان کی”اجازت“ سے تقریر کر رہا ہے۔
نوٹ: جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی تقریر میں، خود پر تنقید کی اجازت دی۔ سوچا کہ اس نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔