احسن یونس کی کردار کشی

راجہ لیاقت
یہ سچ ہے کہ احسن یونس جو اس وقت تک اسلام آباد پولیس کے آئی جی ہیں، انہیں خاص طور پر اسلام آباد میں لگایا گیا تھا۔ بعض افواہیں یہ تھیں کہ انہوں نے سٹی پولیس آفیسر راولپنڈی کے طور پر جہاں ایک طرف غیرمعمولی کام کئے۔ پولیس ویلفیئر سے لیکر جرائم پیشہ گینگز کے خلاف بھرپور کارروائیاں کیں۔ کئی انتہائی خطرناک مجرموں کو پولیس مقابلوں میں پار بھی کیا۔ پولیس کے اندر احتساب کا بھی کڑا بندوبست رکھا لیکن شیخ رشید، راجہ بشارت اور خاص کر ایک انتہائی اہم حساس ادارے کے سربراہ کے سسر کی خصوصی خدمات کے صلے میں انہیں انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس لگایا گیا۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا نام بھی لیا جاتا رہا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سفارش ایک تلخ حقیقت تھی،ہے اور لگتا ایسے ہی ہے جب تک پاکستان قائم ہے، یہ سفارش کا کلچر کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر اچھے اور ایماندار لوگوں کو سفارش کے ذریعے بھی اہم ذمہ داریاں دی جائیں تو اس میں برا کیا ہے؟ اگر بدعنوان، راشی اور نااہل لوگوں کو اہم عہدوں پر لگایا جائے تو یقینا یہ بہت بری بات ہے لیکن اگر احسن یونس جیسے آفیسر کو کسی کی سفارش پر بھی اسلام آباد لایا گیا تو میرے ذاتی خیال میں یہ اچھا فیصلہ تھا اور احسن یونس نے اسلام آباد میں کام کر کے دکھایا بھی۔ ان کے مختصر سے دور میں لانگ مارچ سے لیکر حکومت کی تبدیلی تک بے پناہ مشکلات کا سامنا رہا۔ لیکن احسن یونس کی حکمت عملی ہی تھی کہ کوئی بھی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ دو تین دن سے نیشنل اور سوشل میڈیا پر احسن یونس کے خلاف ایک منظم پراپیگنڈا شروع ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ نہ صرف احسن یونس کی تقرری کو عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی اور ان کی دوست فرح کے ساتھ جوڑا جا رہا تھا بلکہ یہ عامیانہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے دس کروڑ رشوت دیکر یہ پوسٹنگ لی ہے اور پھر اپنے پیسے بمع سود وصول کرنے کیلئے ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف کارروائیاں کر کے بہت مال بنایا۔ یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔
احسن یونس کو میرے سمیت درجنوں کرائم رپورٹرز اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے کام کرنے کے انداز سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ ان کے روئیے سے بھی آپ گلا کرسکتے ہیں۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا میں خود کو نمایاں کرنے کے لئے وہ خاص اہتمام کرتے ہیں لیکن ان پر بدعنوانی کا الزام یقینا ایک شرمناک فعل ہے۔ بے شک یہ الزام بعض خفیہ اداروں کی رپورٹ پر ہی کیوں نہ لگایا گیا ہو۔ کون نہیں جانتا کہ ایجنسیوں سے کس طرح یہاں کام لیاجاتا ہے۔کل تک فواد حسن فواد اور احد چیمہ اربوں کرپشن کے ملزم نہیں بلکہ مجرم تھے۔ آج وہ دونوں نئے نویلے وزیراعظم کی آنکھ کا تارا ہیں۔ خود وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز پر درجنوں بدعنوانی کے مقدمات ہیں۔ وہ ضمانتوں پر ہوتے ہوئے ملک کے اہم ترین عہدوں پر جا بیٹھے ہیں۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ان پر جو مقدمات بنائے گئے یا جن الزامات کا انہیں سامنا ہے وہ درست ہیں؟ اگر نئی حکومت نے اپنی مرضی کے لوگ لگانے ہیں اور یقینا ایسا ہی ہے تو ضرور لگائے لیکن پچھلی حکومت میں اگر کچھ افسران نے بہترین کام کیا ہے تو ان پر اس طرح کے گھٹیا الزام لگانے سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ان افسران کا حوصلہ پست ہوتا ہے بلکہ وہ تمام افسران جو اس ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ بھی توبہ کرلیں گے اور پھر وہ وہی کریں گے جو اس ملک میں ہو رہا ہے۔ کسی کو اگر احسن یونس پسند نہیں تو اسے تبدیل کردیں اور جو دودھ کی نہریں بہانا چاہتا ہے، اسے لے آئیں لیکن خدارا پولیس میں بچے کچے چند افسران جو حقیقی معنوں میں نہ صرف ایماندار ہیں بلکہ اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ ان کا خیال کیجئے ورنہ وہ فورس چھوڑ کر کوئی اور نوکری کرلیں گے۔ سابق سٹی پولیس آفیسر ساجد کیانی بھی ایسے ہی افسران میں شمار ہوتے ہیں جو پولیس فورس کے ماتھے کا جھومر ہیں لیکن لاہور میں ایک فاحشہ ٹک ٹاکر کی پلانٹڈ سٹوری کی وجہ سے انہیں ڈی آئی جی آپریشن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ آئی جی راؤ سردار نے جب خود تحقیق کی تو انہیں بے قصور پاتے ہوئے سٹی پولیس آفیسر راولپنڈی لگا دیا لیکن مری حادثہ کو بنیاد بنا کر ساجد کیانی کو ایک بار پھر معطل کر دیا گیا۔ میرے ذرائع کے مطابق وہ اتنے بددل ہوئے کہ نوکری کو لات مارنے پر تل گئے لیکن کچھ مخلص دوستوں نے جن میں آئی جی احسن یونس بھی شامل ہیں، انہیں ایسا کرنے سے روکا۔ شہباز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں صرف جی حضوری کرنے والے افسران ہی پسند ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جووہ کہتے ہیں اس پر فوراً عمل ہونا چاہے۔ …