ہم وہ ہیں جوباتوں سے من موہ لیتے ہیں،ہم وہ ہیں جوگفتارکے غازی تو بن گئے ہیں مگر کردار کے غازی نہ بن سکے،ہم وہ ہیں جواپنی اخلاقیات کویکسر بدل چکے ہیں،ہم وہ ہیں جو سچ بولنے والے سے نفرت کرتے ہیں مگر جھوٹ کے ساتھ صفیں باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں،ہم وہ ہیں جو ایمانداری کو دقیانوسیت گردانتے ہیں اور بے ایمانوں کے ٹولے پر دادو تحسین کے پھول نچھاور کرتے ہیں،ہم وہ ہیں جو اچھے کردار پر بد کرداری کو فوقیت دیتے ہیں ،ہم وہ ہیں جو اخلاقیات کی تعریف سے نا آشنا ہیں اور اخلاقی گراوٹ کو کامیابی و سکون سمجھ بیٹھے ہیں ،ہم وہ ہیں جو با شعور اور بے شعور کا فرق بھول چکے ہیں۔الغرض ہم وہ ہیں جو ہمیں نہیں ہونا چاہئے اور ہم وہ بن گئے ہیں جو رب کریم کو پسند نہیں ہیں۔
75سال میں ہم نے ہر طرز حکمرانی کو جھیلا،ہر قسم کے وعدوں،نعروں کو خود میں سمویا،ہر قسم کے تلخ و نامساعد حالات سے گزرے،ہر قسم کی رنگ برنگی شخصیات کو خود پر مسلط ہونے کا موقع دیا،مگر ہم جہاں سے چلے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔کوئی ایک بھی ایسا نہیں آیا جس نے اپنی دکان چمکانے کے لئے جتن نہ کئے ہوں مگر کوئی ایک بھی ایسا نہیں آیا جس نے ہمیں ایک قوم بنانے کے لئے کوشش کی ہو،ہمارے دکھ درد کادرماں کیا ہو ہمارے مصائب و مشکلات کاازالہ کیا ہو۔سب کے پاس رنگین وعدوں اور دعوئوں کا ریشم تھا جس میں پھنس کر ہم الجھتے ہی گئے اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ وہ ریشم ہمارے گلے کاپھندہ بن چکا ہے اور ہماری رہائی ممکن نظر نہیں آرہی۔
اختلاف رائے اور احتجاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اس حق پر کوئی بھی قدغن لگانے کامجاز نہیں،ہر دور میں اور دنیا کے ہر ملک میں احتجاج ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے مگر احتجاج اور انتشار میں فرق ہونا چاہئے۔صدر ایوب خان کے دور حکومت میں جب ملک میں آٹے کی قیمت میں اضافہ کیا گیاتو ملک بھر سے احتجاج کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔اس احتجاج میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے۔ وہ شعرا کرام مزاحمتی ادب یا انقلابی شاعری جنکاخاصہ تھا انہوں نے اپنی شاعری کے زریعے حکمرانوں کوللکار۔ انکی للکار تاریخ کاحصہ بن گئی۔ حبیب جالب نے اپنے کلام کو حکومت کے خلاف ایسا استعمال کیا کہ ان کے قلم سے نکلنے والا ایک ایک حرف حکومتی ایوانوں میں آگ لگا دیتا۔اس دور کے دس کروڑعوام اب بائیس سے چوبیس کروڑ ہو چکے ہیں۔ لیکن انکی فکراب بھی سوئی ہوئی ہے،آج بھی جہالت کا راج ہے۔ قوم اس عہد میں بھی بے شعور ہے، ایسے لوگ معاشرے پر بوجھ کے سواکچھ نہیں ہوتے۔ جوقوم شخصیت پرستی میں بت پرستی کی حد تک چلی جائے اس کی اخلاقی اقدار پر کیا بات کی جا سکتی ہے۔
ہمارے سیاستدان اپنے کارکنان کو با شعور بنانے اور انکی سیاسی تربیت کی بات تو کرتے ہیں مگر جب ان پر کڑا وقت آتا ہے تو انکے دعوئوں کی قلعی کھل جاتی ہے ۔اگر ایک کال پر کارکنان کو باہر نکالا جاسکتا ہے تو ایک کال پر انہیں پر تشدد احتجاج سے کیوں روکانہیں جاسکتا ۔کارکنان کے بے قابو ہجوم کا سرکاری و عوامی املاک کو نقصان پہنچانا ہمارے تمام سیاسی قائدین کے کارکنان کو با شعور بنانے کے دعوئوں پرسوالیہ نشان ہے۔
احتجاج کیجئے مگر پر امن تا کہ آپکی سیاسی تربیت پر سوال نہ اٹھائے جاسکیں،ہر شہر میں کم از کم ایک حلقے کے جینوئن ووٹرز بھی نکل آئیں اور مطلوبہ مقام تک پر امن مارچ کریں تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے پاس پاورہے اور پڑھے لکھے باشعور ووٹر ہر کڑے وقت میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں مگر یہ کیا کہ توڑ پھوڑ اور جلائوگھیرائوجو دوسری سیاسی اور مخصوص مذہبی جماعت کا وطیرہ تھاآپ بھی اسی روش پر چلے،جس نے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ یہ جینوئن نہیں بلکہ کرائے کے لوگ ہیں جو ہر احتجاج میں توڑ پھوڑکرنیکے تربیت یافتہ ہیں،پی ٹی آئی کے موجودہ احتجاج نے تو ٹی ایل پی کے احتجاج کو بھی مات دیدی ،خدارا اپنے قائد کو شرمندہ نہ کریں ، اس نے آپ کی جو بیس بائیس سال تربیت کی اسے سوالیہ نشان نہ بنائیں ۔احتجاج میں حد سے تجاوز نہ کریں کہ پارٹی قائدین بھی آپ کو اپنا کارکن ماننے سے انکار کر دیں،اس جماعت کی روش نہ اپنائیں جنہیں آپ نے دہشتگرد قرار دیکر کالعدم قرار دیا تھا۔تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے گزارش ہے کی خود پر نظر ثانی کریں ،شخصیت پرست اور ذاتی پیروکار نہ بنائیں بلکہ سیاسی کارکنان بنانے پر توجہ دیں جو ملک و قوم کے مفاد کونقصان نہ پہنچائیں اور حقوق کے حصول کے لئے احتجاج کے پر امن طریقہ کار کو اپنائیں۔
/ img src="https://capitalnewspoint.com/wp-content/uploads/2024/09/Sarhad-University-Expands-Its-Horizons-with-the-Launch-of-Islamabad-Campus-1.jpg">