معاشی کشتی کو کنارے لگانے کا عزم،،،تحریر- راؤ طاہر

ملک میں اس وقت سیاست اور معیشت دو ہی بڑے مسئلے ہیں اور دونوں کی حالت انتہائی ابتر ہوتی جارہی ہے جب تک یہ دونوں مسائل حل نہیں ہوں گے ملک کی سمت درست نہیں ہوگی-ملکی سطح پر سیاسی محاذ آرائی کے اثرات تباہ کن ثابت ہورہے ہیں اسحاق ڈار کی سر توڑ کوششوں کے باوجود ڈالر مزید نیچے آنے سے انکاری ہے- حکومت کی سر توڑ کوشش اور تمام تر شرائط کو تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان اور آئی ایم ایف سٹاف لیول معاہدہ کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں- اعتماد کے فقدان کی وجہ سے آئی ایم ایف پاکستان پر اندھا اعتماد کرنے کو تیار نہیں-
زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گر رہے ہیں- بجلی اور گیس کی قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکلوادی ہیں’ مہنگائی نے اچھے اچھے سفید پوشوں کے بھرم کھول کر رکھ دیئے ہیں–دنیا کے اقتصادی حالات اور سیلاب کے نقصانات نے انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا ہے’ بڑی تعداد میں مزدوروں کو بے روز گاری کا سامنا ہے–قتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی ختم ہوگا تو معاشی بحران قابو میں آئے گا-معاشی معاملات کو بہتر کرنے کے لئے بات چیت ضروری ہے-
کورونا کی جان لیوا وبا کے بعد ایک ہی سانس میں روس یوکرین جنگ کے اثرات نے جس طرح ساری دنیا کو کساد بازاری کی لپیٹ میں لیا، اس سے امریکہ جیسا ملک بھی دیوالیہ ہونے سے بمشکل بچ سکا ہے۔ معاشی طور پر مضبوط ممالک اپنے لچکدار نظام کی بدولت خود محفوظ رہے لیکن اس کا اثر ترقی پذیر اور غریب ممالک پر پڑا۔ پاکستان جو پہلے ہی بیرونی قرضوں کے غیر معمولی بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور گذشتہ برس کی طویل اور موسلادھار بارشوں ، سیلابوں اورمعیشت بچانے کیلئے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کی سخت ترین شرائط سے دوچار ہوا ، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر دوگنا زیادہ ہوجانے سے اس کے غیر قانونی کاروبار نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔
تجارتی عدم توازن اور ترسیلات زر میں کمی کا عنصر زرمبادلہ کے قومی ذخائر پر اثرانداز ہوا، اور معیشت دیوالیہ ہونے کی نہج پر آگئی ۔ اب 30 جون کو اختتام پذیر ہونے والے مالی سال کے معاشی اشاریے حسب سابق باعث تشویش اور مالی سال 2023-24 کے بجٹ کی تیاری میں نئی مشکلات لے کر آئے ہیں، ٹیکس وصولیوں میں 430 ارب روپے کی کمی اس سال بھی ایف بی آر کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بن کر ابھری ہے جس کے تحت ہرسال پیدا ہونے والا بجٹ خسارہ ایک ایسا منحوس چکر بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتے بڑھتے 54 ہزار ارب روپے سے متجاوز ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکیج کے حصول کی خاطر مالی سال 2022-23 جو ریکارڈ مہنگائی لے کر آیا، اس میں عام اور غریب طبقے کی قربانی بھی کام نہ آسکی-
پاکستانی معیشت کو بحران سے نکالنے کیلئے بہت بڑے پیمانے پر مالی وسائل درکار ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈاس حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل ادارہ ہے۔دوسرے مالیاتی اداروں اور ممالک کا تعاون اس کی ضمانت کے بغیر نہیں ملتا۔ پچھلی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں آئی ایم ایف کی شرائط کی کھلی خلاف ورزی کرکے پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار کردیا۔ ملک کو درپیش سنگین معاشی صورت حال سے نکالنے کے لئے موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی مزید سخت شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں جن کا مقصد پاکستان معاشی بحران سے نکالنا اور ملکی وسائل میں اضافہ کرنا ہے-
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کردی ہیں’ امید ہے رواں ماہ اس کے ساتھ حتمی معاہدہ ہوجائے گا-بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں ہنگامی منصوبے کے حوالے سے وزیر اعظم کا پاکستانی قوم کے عزم اور استقامت پر زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام نے ماضی میں چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنی کمر کس لیں گے اور کھڑے ہوں گے-
قوم کی بھی یہ دلی خواہش اور آرزو ہے کہ ہم اپنی محنت’ ہمت’ بہترین منصوبہ بندی اور وسائل سے بھرپور استعفادہ کرکے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں سر اٹھا کر کھڑے ہوں اور اپنے روایتی( کشکول گدائی) کو توڑ کر اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لاکر جلد خود کفالت کی منزل حاصل کریں جو خود داری اور خود مختاری کی ہمیشہ سے ہی ضامن ہوتی ہے لیکن ملک میں جاری سیاسی بحران اور عدم استحکام وفاقی حکومت کی ملکی معیشت کی بحالی کے لئے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچا رہا ہے جبکہ قوم یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ نہ جانے کب ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ وہ اپنے باہمیاختلافات کو ختم کرکے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور شاہراہ ترقی پر گامزن کرنے کے لئے متحد ہوجائیں مگر سیاست دانوں سے وابستہ ان کی یہ توقع پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی-
رض پاک جس نازل صورت حال سے دوچار ہے اس سے نکلنے کے لئے سخت ترین فیصلے اور ان پر سختی سے کاربند ہوکر ہی ملک کو اقتصادی مشکلات سے نکالا جاسکتا ہے-پاکستان کے لئے قرض کی رقم سے زیادہ قرض پروگرام کی بحالی اہم ترین ہے اس پروگرام کی بحالی سے پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے درمیان اعتماد بحال ہوگا تو پاکستان اور اس کے دوست ممالک کے درمیان مالیاتی تعلقات بھی بحال ہوجائیں گے اور وہ پاکستان کی امداد کے وعدے پورے کریں گے-
پاکستان کو تاریخ کے سنگین ترین معاشی بحران سے نکالنے کے لئے آئی ایم ایف کے مطالبات پر حکومت اس وقت جو بھی فیصلے کر رہی ہے اگرچہ وہ سب ناگزیر ہیں مگر حکومتی اقدامات کے نتیجے میں امیر اور غریب کے درمیان جو تقسیم مزید گہری ہوئی ہے، اسے کم کرنے کے لئے حکومت کو روزمرہ اخراجات میں کمی کر کے کچھ اصلاحات کرنی چاہئیں، سادگی اپنانے کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے، سرکاری دفاتر کو اس حوالے سے اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔ تمام محکموں کے سربراہ خود بھی اس پر عمل کریں اور دیگر کو بھی اس کی تحریک دیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا ہے یہ سب ایک سیاسی حکومت ہی کر سکتی ہے۔
حکومت پاکستان ملک کو معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے خود انحصاری کی جانب قدم بڑھائے-عوام کو مسلسل قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے حکومتی اخراجات کو کم کیا جائے اور چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کی عادت ڈالی جائے اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی بجائے ڈائریکٹ ٹیکسوں کے حصول کو یقینی بنایا جائے- پاکستان قدرتی وسائل سے بھرپور ملک ہے ان وسائل کو ملک وقوم کی ترقی کے لئے بروئے کار لایا جائے تو پاکستان بہت جلد خو انحصاری کی جانب گامزن ہوسکتا ہے- ملک کو معاشی طور پراپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے اب دو فیصد اشرافیہ کو سچے دل سے ایثار وقربانی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تبھی یہ کشتی منجدھار سے نکل کر کنارے پر لگے گی-
یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب قومیں ایک مخصوص رستہ اختیار کرلیتی ہیں تو اسی حوالے سے ان کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حکمرانی، جسے خدمت سمجھا جانا چاہئے، بھی خدا کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کے ساتھ باقی اداروں بلکہ ہر محکمے کو بھی ایک پیج پر ہونا پڑے گا اور اس کا اظہار زبانی نہیں عملا نظر آنا چاہئے،ہر فرد کو اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے ملکی ترقی میں حصہ لینا چاہئے۔ یہ عمل ہی سیاسی استحکام کا باعث بنے گا۔بلا شبہ جمہوری حکومت عوام کی’ عوام کے لئے اور عوام کے ذریعے ہوتی ہے لیکن اس کا عملی اظہار بھی ہونا چاہیے-بے پناہ وسائل کے حامل اس ملک کو خلوص نیت’ ایمانداری اور دیانت داری سے چلایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک وقوم ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہ ہوسکیں