پاکستان میں سالانہ میزانیہ اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے یہ صرف اہداف اور ان کے لئے مختص فنڈز کے حجم اور مختلف شعبوں پر عائد ہونے والے ٹیکسز کی شرح پر مشتمل ہوتا ہے-سرکاری اخراجات کا تخمینہ اور ارکان پارلیمنٹ کے لئے ترقیاتی فنڈز کا حجم مقرر کیا جاتا ہے سالانہ میزانیے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر نہیں کی جاتیں جو کبھی مقرر ہوا کرتی تھیں اسی طرح بجٹ میں بجلی گیس کی قیمتوں کا تعین بھی نہیں کیا جاتا اور پورا سال عوام پٹرولیم مصنوعات’ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے خود کش حملے برداشت کرتے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کو جھیلتے رہتے ہیں-
الغرض بجٹ صرف یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے عوام پر کتنے ارب ڈالر کا قرضہ لیا جاچکا ہے اور مزید کتنا لینا اور اس پر سود کتنا ادا کرنا ہے بعدازاں یہ بتایا جاتا ہے کہ دفاع پر اتنا خرچ ہوگا’ سرکاری افسروں’ اعلی عدلیہ’ خود مختار سرکاری کا رپوریشنز’ اتھارٹیز اور بورڈز کے سربراہوں اور ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا خرچ کتنا ہے اور ان خراجات کو پورا کرنے کے لئے عوام کو مزید کتنی قربانی دینی ہے-
میاںشہباز شریف کی قیادت میں قائم حکومت کے لئے ورثے میں ملنے والے مسائل بالخصوص ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں اور حکومت اس سلسلے میں اقدامات بھی کر رہی ہے- ملک کو درپیش انتہائی مشکل معاشی حالات میں2023-24کا
متوازن بجٹ کا پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت ملک کو مشکل حالات سے نکالنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے پر عزم ہے-
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ’ ٹریکٹر’ سولر پینل’ بیٹریاں’ آئی ٹی آلات کو سستا کرنے’ لیپ ٹاپ سکیم کے لئے10ارب روپے50ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے30ارب مختص کرنے’ چھوٹے کاروبار کے لئے ٹرن اوور کی حد80کروڑ’ صنعتی شعبے پر آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے’ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں50ارب کا اضا فہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں زرعی قرضوں کی حد کو1800ارب سے بڑھا کر2250ارب کرنے’ معیاری بیچ کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز کو ختم کرنے’ زرعی اجناس کی ویلیو ایڈیشن کے لئے دیہی علاقوں میں لگائے جانے والے صنعتی یونٹس کو تمام ٹیکسز سے پانچ سال کے لئے مکمل استثنی دینے کے اقدامات اقدام خوش آئند ہیں-
حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زراعت’ صنعت’ تجارت’ آئی ٹی’ فلم وثقافت سمیت ہر شعبے پر توجہ دی ہے ‘ زرعی شعبے پر توجہ مرکوز کرنے سے نہ صرف کسان کو نئی معاشی زندگی ملے گی بلکہ ملک میں گرین انقلاب بھی برپا ہوگا فصلوں کی پیداوار بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتوں میں کمی لانے میں مدد ملے گی- سابق وزیر مملکت وماہر معیشت ہارون شریف نے کہا ہے کہ جو ہمارے کرنٹ اکنامک چیلنجز ہیں اور ہمیں جو فسکل اسپیس دستیاب ہے اس کے اندر حکومت نے ایک بیلنس بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے-روٹین کے اس بجٹ میں بہت سے اسٹیک ہولڈرز کی توقعات کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے-
کورونا کی جان لیوا وبا کے بعد ایک ہی سانس میں روس یوکرین جنگ کے اثرات نے جس طرح ساری دنیا کو کساد بازاری کی لپیٹ میں لیا، اس سے امریکہ جیسا ملک بھی دیوالیہ ہونے سے بمشکل بچ سکا ہے۔ معاشی طور پر مضبوط ممالک اپنے لچکدار نظام کی بدولت خود محفوظ رہے لیکن اس کا اثر ترقی پذیر اور غریب ممالک پر پڑا۔ پاکستان جو پہلے ہی بیرونی قرضوں کے غیر معمولی بوجھ تلے دبا ہوا ہے –
گذشتہ برس کی طویل اور موسلادھار بارشوں ، سیلابوں اورمعیشت بچانے کیلئے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کی سخت ترین شرائط سے دوچار ہوا ، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر دوگنا زیادہ ہوجانے سے اس کے غیر قانونی کاروبار نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ تجارتی عدم توازن اور ترسیلات زر میں کمی کا عنصر زرمبادلہ کے قومی ذخائر پر اثرانداز ہوا، اور معیشت دیوالیہ ہونے کی نہج پر آگئی-
ٹیکس وصولیوں میں 430 ارب روپے کی کمی اس سال بھی ایف بی آر کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بن کر ابھری ہے جس کے تحت ہرسال پیدا ہونے والا بجٹ خسارہ ایک ایسا منحوس چکر بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتے بڑھتے 54 ہزار ارب روپے سے متجاوز ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکیج کے حصول کی خاطر مالی سال 2022-23 جو ریکارڈ مہنگائی لے کر آیا، اس میں عام اور غریب طبقے کی قربانی بھی کام نہ آسکی-
عالمی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ( آئی ایم ایف) ورلڈ بنک اور ایشیائی ڈویلپمنٹ بنک( آئی ڈی بی) ضرورت مند ممالک کو کم ترین شرح سود لیکن کڑی شرائط پر قرض دیتے ہیں-قرض دار اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کڑی شرائط قبول کرنے پر مجبور ہیں جبکہ قرض خواہ اپنی رقوم بمع سود کی واپسی کو یقینی بنانے کے لئے ٹیکسوں میں اضافے اور مزید ٹیکس لگانے جیسے اقدام سے قرض کی فراہمی کو مشروط کرتے ہیں-
دنیا میں مذکورہ مالیاتی اداروں کے علاوہ بھی قرض فراہم کرنے والے ادارے انٹرنیشنل فنانشل انسٹی ٹیوشنز( آئی ایف آئی) موجود ہیں لیکن ان کا انٹرسٹ ریٹ ناقابل برداشت حد تک زیادہ ہے-آئی ایم ایف’ عالمی بنک اور اے ڈی بی سے قرض دو اڑھائی فیصد شرح سود پر ملتا ہے تو آئی ایف آئی کی شرح18سے20فیصد تک ہے- اصولی طور پر قرض خواہ کو قرض کی واپسی سے غرض ہونی چاہیے ‘ مقروض جیسے چاہے اس کا بندوبست کرے’ شاید مالیاتی اداروں کو ہمارے کرپٹ نظام سے آگاہی ہے کہ اسے ایسی شرائط عائد کرنا پڑتی ہیں جس سے عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں-
پاکستان پر مجموعی طور پر ملکی و غیر ملکی قرضوں اور مالیاتی ضمانتوں کا حجم ریکاڈ سطح پر پہنچ گیا ہے قرص پہ قرض بڑھنے کی بڑی وجوہات میں کرپشن اور حکام کی جانب سے قرض لوٹانے کے معاملہ میں عدم دلچسپی ہے- پاکستان میں روزانہ اربوں روپے کی کرپشن اور لوٹ مار ہوتی ہے حکمرانوں کو قرض لوٹانے کے لئے عوام کا ناطقہ بند کرنے کی ضرورت کبھی پیش نہ آئے اگر متعلقہ اداروں کی جانب سے ایمانداری سے مروجہ ٹیکسوں کی وصولی کو یقینی بنا لیا جائے-
آئی ایم ایف بجلی چوری کو ہماری معیشت کی بربادی کا سبب’ توانائی کی قلت کو زور دار طریقے سے پاکستان کا مسئلہ قرار دیتا ہے-ایک بجلی چوری پر ہی موقوف نہیں’ یہاں تو قومی وسائل پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں -کروڑوں اور اربوں کے قرضے معاف کرالئے جاتے ہیں روایت بن چکی ہے کہ قرض لینے والے کو کرپٹ بنک حکام قرض کی منظوری کی دستاویزات کے ساتھ قرض معافی کا فارم بھی تھما دیتے ہیں-آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کرنے کے باوجود اس کی جانب سے امداد ملنے کی توقعات بھی کم ہی ہیں۔ ایسے میں کم آمدنی والے طبقات کیلئے مشکلات ختم ہونے کی بجائے بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔
-یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق امرا کو 4200 ارب روپے کی مراعات حاصل ہیں۔ زرعی آمدنی پہ ٹیکس محض 2 ارب روپے اور شہری کرایوں کی مد میں صرف 6 ارب روپے وصول ہوتے ہیں- اگر تقسیم دولت کی موجودہ حالت بر قرار رہی تو ملک میں کوئی بہت بڑا انقلاب ناگزیر ہے- آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں ریاستی اقتدار اعلی کئی اعتبار سے اپنی جداگانہ حیثیت گنوا بیٹھا ہے۔ آئی ایم ایف کے دقیانوسی مالی ومالیاتی نسخوں سے کام چلا اور نہ چلے گا- ملک کو موجودہ اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا-
/ img src="https://capitalnewspoint.com/wp-content/uploads/2024/09/Sarhad-University-Expands-Its-Horizons-with-the-Launch-of-Islamabad-Campus-1.jpg">