موناہل اور پریشان حال پاکستان

راجہ لیاقت
غیر ملکی سفیر، ان کی فیملیز، صحافی، تاجر، سیاستدان اور زندگی کے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نظر آرہی تھی۔ میں اور میرے ایڈیٹر تزئین اختر ساڑھے پانچ بجے اپنے آفس سے نکلے۔ ای الیون سے ہوتے ہوئے چڑیا گھر کے پاس سے مارگلہ کے خوبصورت پہاڑوں میں داخل ہوئے اور بل کھاتی سڑک جس کے چاروں اطراف خوبصورت ہریالی سے لدے پہاڑ تھے۔ گزرتے ہوئے تقریباً 9 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے اسلام آباد شہر کے بالکل اوپر، اس موناہل ریسٹورنٹ پہنچے جسے کچھ ماہ قبل”غیرقانونی“ قرار دیکر بند کر دیا گیا۔ ہائیکورٹ اسلام آباد کے اس فیصلے سے ہر وہ شخص حیران اورافسردہ تھا جس نے کبھی اس خوبصورت ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا ہے۔ کھانے کا ذائقہ تو اپنی جگہ قابل تعریف ہے ہی لیکن اس ریسٹورنٹ میں کسی بھی جگہ بیٹھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی نئی دنیا میں آگئے ہیں جہاں امن ہے، پیار ہے، خوبصورتی ہے، رومانس ہے، خاص کر رات کے وقت اسلام آباد شہر اس ریسٹورنٹ سے ایسے لگتا ہے جیسے آپ آسمان سے کہیں اوپر آگئے ہیں اور ستاروں سے لدا بھرا آسمان آپ کے قدموں میں ہے۔
اسلام آباد شہر دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے لیکن اس کی اصل خوبصورتی دیکھنی ہو تو رات کے وقت موناہل ریسٹورنٹ چلے جائیں، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ جگہ اس ملک میں ہے جہاں غربت، جہالت، گندگی، بدامنی، لاقانونیت ہے جب سے یہ ریسٹورنٹ قائم ہوا میں سینکڑوں بار یہاں آچکا ہوں۔ دوستوں کے ساتھ، اپنی فیملی کے ساتھ، کبھی ایک بار بھی بوریت نہیں ہوئی۔ یورپ، انگلینڈ، امریکہ اور دیگر ممالک میں میرے سینکڑوں دوست رہتے ہیں۔ وہ پاکستان آئیں تو ان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں موناہل لیکر جاؤں۔ مطلب اس ریسٹورنٹ کی خوبصورتی اور ماحول کے بارے میں دنیا جانتی ہے لیکن پتا نہیں اچانک ایسا کیا ہوا کہ 2005ء میں سی ڈی اے کی طرف سے ایک آرڈیننس کے تحت قائم یہ ریسٹورنٹ اچانک ”غیرقانونی“ ہوگیا اور اس کے خلاف باقاعدہ ایک پروپیگنڈا کھڑا کیا۔ لیکن بھلا ہو سپریم کورٹ کا کہ پاکستان اور خاص کر اسلام آباد کی پہچان اس موناہل ریسٹورنٹ کو کھول دیا گیا ہے لیکن میرے ذاتی خیال میں اسے بند کرانے کے پیچھے جو گندے ذہن تھے وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے اور پھر کوئی نہ کوئی سازش کر کے اسے بند کروا کر اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
چوتھے روزے کیلئے موناہل کے مالک لقمان نے افطار ڈنر پر مدعو کر رکھا تھا جس کے لئے ہم وہاں پہنچے تھے۔ وہ خود اپنے سٹاف کے ساتھ ہر ملکی اور غیر ملکی مہمان کو خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کر رہے تھے اور سٹاف کے ذریعے مہمانوں کو مختلف ٹیبلز پر بٹھا رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ہماری ٹیبل پر آذربائیجان کے سفیر اور دیگر سٹاف بیٹھا تھا۔ ان کے بقول وہ بھی اس ریسٹورنٹ کے مستقل کسٹمر تھے مجھے وہاں طارق فضل چوہدری، حنیف عباسی، ملک ابرار، راجہ حنیف، عمران خان کے معاون خصوصی اور ایم این اے عامر ڈوگر بھی ملے۔یورپ اور دیگر ممالک کے سفیر اور ان کی بیگمات اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی مدعو تھی یہاں اکثر ڈنر کے وقت لائیو میوزک ہوتا ہے لیکن شاید رمضان کے احترام میں اس کا بندوبست نہیں تھا۔ حسب روایت اور حسب معمول ڈنر انتہائی شاندار تھا۔
یہاں بیٹھ کر ذرا بھی احساس نہیں ہو رہا تھا کہ چند کلومیٹر نیچے سپریم کورٹ کی اس عمارت میں جو موناہل سے صاف نظر آتی ہے، چار دن سے ایک ایسا مقدمہ چل رہا ہے جسے بائیس کروڑ لوگ بڑی توجہ سے اور فکرمندی سے سن رہے ہیں۔ مختلف ممالک کے سفیر بھی افطار ڈنر کے دوران محتاط انداز میں صحافیوں سے اس موضوع پر بات کرتے پائے گئے۔ موناہل کے مالک لقمان پاکستان کے سب سے بڑے اور مہنگے تعلیمی اداروں ایچی سن کالج اور لمز کے گریجویٹ ہیں اور انہوں نے موناہل کو حقیقی معنوں میں پاکستان کی پہچان بنا دیا ہے۔ ان کی خدمات پر انہیں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ تقریباً سات سو خاندان اس ریسٹورنٹ کی ملازمت کی وجہ سے عزت سے زندگی گزار رہے ہیں لیکن بعض گندے ذہنوں کو شاید یہ بھی گوارا نہیں حالانکہ مارگلہ کے ان پہاڑوں میں اور بھی ایک درجن کے قریب ریسٹورنٹس ہیں لیکن موناہل کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے ریٹس کی وجہ سے یہ کھاتے پیتے لوگوں کا مخصوص ریسٹورنٹ ہے لیکن میری معلومات کے مطابق لقمان اور ان کی بیگم پاکستان کے مستحق افراد کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں اور انتہائی نرم گفتار، خوف خدا رکھنے والے لوگ ہیں۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کاروباری رقابت یا جلن میں ایسے لوگوں کے خلاف سازشیں دراصل ملک کے خلاف سازش کہلاتی ہے۔ میں موناہل ریسٹورنٹ میں ڈنر کے بعد ایک کونے میں کھڑا نیچے جگمگاتے اسلام آباد کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اس چھوٹے سے شہر میں کتنے طوفان چھپے ہوئے ہیں اوپر سے ”ریڈ زون“کو دیکھ کر یہ خیال بھی آرہا تھا کہ یہاں سے بائیس کروڑ لوگوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہاں وزیراعظم، صدر، سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان، سینٹ کے لوگ، منسٹرز رہتے ہیں۔ یہیں پر فارن آفس ہے۔ قومی اسمبلی ہے جہاں پر اقتدار کی جنگ اپنے عروج سے نکل کر سپریم کورٹ کی عمارت میں لڑی جارہی ہے۔ کاش ہم اپنے پورے ملک میں ایسا ہی ماحول بنا سکیں جو اس وقت موناہل میں چل رہا ہے۔ پرسکون، خوشیوں اور خوشبوؤں سے بھرپور، رومان پرور، ہم اپنے اس خوبصورت ملک کو، خوبصورت مناہل جیسا کیوں نہیں بناسکتے جس میں اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ مختلف ملکوں کے سفیر، ہر طبقہ فکر کے لوگ اور صحافی، تمام اختلافات کو بھول کر ہنستے مسکراتے کھانے کے ساتھ، خوبصورت ماحول سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
نوٹ: اس وقت شام کے پانچ بجے ہیں۔ ساڑھے سات بجے سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانا ہے۔ کمپوزنگ کیلئے بروقت کالم بھیجنا ضروری ہے۔ پچھلی رات ساڑھے سات بجے ہم موناہل کے انتہائی پرمسرت ماحول میں تھے۔ آج کی رات ساڑھے سات بجے کیا ہوتا ہے؟ یقینا یہ کالم پڑھتے ہوئے سب کو معلوم پڑ چکا ہوگا۔
اختتام: موناہل کے مالک لقمان اپنے مہمانوں کو اُسی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ رخصت کر رہے تھے جس سے انہوں نے استقبال کیا تھا۔