ایک کالم جسے کو ئی نہ پڑھے

سجاد اظہر

یہ 2009 کی بات ہے نیویارک ٹائمز نے اپنے ہیڈ آفس میں دنیا کے مختلف ملکوں کے صحافیوں کی ایک تربیتی ورکشاپ کروائی جس میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کرتے ہوئے رپورٹنگ کے نئے طریقے بتائے گئے تھے. مجھے بھی اس ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا. ایک طریقہ یہ تھا کہ جب آپ کو ای میل میں کسی خبر یا واقعہ کا بتایا جاتا ہے تو آپ کیسے معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ ای میل کس جگہ، کس بندے اور کس کمپیوٹر میں سب سے پہلے جنریٹ ہوئی اس زمانے میں وٹس ایپ نہی آئی تھی. اس. سے کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں عدلیہ تحریک اپنے جوبن تھی جس کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری بحال ہو چکے تھے اور انہیں برطرف کرنے والے صدر مشرف اقتدار سے نکالے جانے کے بعد مختلف ملکوں میں لیکچر دیتے پھر رہے تھے. میری ای میل میں درجنوں ایسی ای میلز تھیں جن میں عدلیہ بحالی تحریک کے دوران روزانہ کی سرگرمیاں درج ہوتی تھیں ان ای میلز میں آئندہ ہفتے پورے ملک میں ہونے والی ریلیوں کی تفصیلات بھی درج ہوتیں بڑے شہروں سے لے کر تحصیل لیول تک ہر سرگرمی کے وقت اور دن کا تعین ہوتا. یہ ماننا پڑے گا کہ عدلیہ بحالی تحریک اپنے دور کی منظم ترین تحریک تھی. میں نے نیویارک ٹائمز میں بیٹھے بیٹھے ہی عدلیہ بحالی تحریک کی ایک ای میل ڈی کوڈ کرنے کے لئے سسٹم میں ڈال دی. نتائج نے میرا سر چکرا کر رکھ دیا. یہ ای میل امریکہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہاروڈ کے سرور سے جنریٹ ہو رہی تھیں اور اس کے بعد پورے پاکستان میں پھیلائی جا رہی تھیں. میں نے یہ بات عدلیہ بحالی تحریک کے رہنما کو بتائی اس نے آگے سے مجھے اور حیران کر دیا کہ میرے پاس پہلے ہی کچھ شواہد موجود ہیں کہ امریکی اس تحریک کو فنڈ کر رہے ہیں.
اگلا منظر نیویارک کے سیون سٹار ہوٹل رٹز کارلٹن کا ہے میرے سامنے سابق صدر مشرف بیٹھے ہیں. میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے وزیرخارجہ خورشید قصوری کہتے ہیں کہ اگر عدلیہ کی تحریک میں ہماری حکومت کمزور نہ ہوتی تو ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ چکے تھے
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو قوتیں
مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتی تھیں وہی عدلیہ بحالی تحریک کے پیچھے تھیں تاکہ آپ کی حکومت کمزور ہو جائے. مشرف نے میری طرف جب دیکھا تو ان کی آنکھوں میں افسردگی اتر آئی تھی. کہنے لگے اس کا کھوج لگانا آپ جیسے صحافیوں کا کام ہے.
تیسرا منظر ہے کابل کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کا جب امریکیوں کے ہنگامی انخلا کے بعد پاکستان کے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی فاخرانہ انداز میں چائے کا کپ نوش فرما رہے ہیں. امریکہ پہلے ہی افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتا تھا اور اس چائے کے بعد اس نے ہر قیمت پر پاکستان کو. نشان عبرت بنانے کی ٹھان لی تھی .
چوتھا منظر ہے ماسکو کا، روسی صدر یوکرائن پر یلغار کر چکے ہیں اور ہمارا وزیراعظم وہاں روس کے ساتھ دو طرفہ تعاون کی نئی راہیں تلاش کر رہا ہے. ایک بار پھر ہاتھیوں کی لڑائی میں پاکستان ترنوالہ بنانے کا نسخہ امریکہ کو پاکستان نے خود مہیا کیا ہے.
پانچواں منظر ہے میاں چنوں میں بھارتی کروز میزائل کا گرنا.
چھٹا منظر ہے عمران حکومت کی رخصتی اور عمران کی جانب سے پورے ماحول کو امریکی سازش قرار دے کر ملکی سلامتی سے وابستہ افراد کے خلاف موڑ دینا.
ساتویں منظر میں پورا ملک تقسیم ہے اور اس تقسیم کا شکار تمام ادارے ہیں، کسی کو سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ دراصل ہو کیا رہا ہے؟ یہ آخری وار ہے جو پاکستان کے خلاف کھیلا گیا ہے،. اس کے بعدکا منظر بہت بھیانک ہے جس کے سکرپٹ میں ایک نہیں کئی سقوط لکھے ہوئے ہیں.